جی تو چاہتا تھا کہ اس ہفتے انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی اس رپورٹ پر اظہار خیال کیا جائے جو دہلی فساد سے متعلق ہے اور جس میں مرکزی حکومت کی پشت پناہی میں دہلی پولس کی مسلم دشمن ذہنیت اور اس کی متعصبانہ سوچ کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ لیکن چونکہ دہلی فساد پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اس لیے اس سے گریز کرتے ہوئے ملک کو پیش آمدہ خطرات کی جانب توجہ دلانے کی کوشش کی جائے گی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی مذکورہ رپورٹ 28 اگست کو جاری کی گئی ہے۔ وہ انتہائی چشم کشا ہے۔ ہر انصاف پسند شخص کو اسے پڑھنا چاہیے اور مرکزی حکومت کو اس کی سفارشات پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔
Published: 30 Aug 2020, 7:56 PM IST
یہ بات بتانے کی کوئی چنداں ضرورت نہیں کہ بہار میں اسی سال اور مغربی بنگال سمیت پانچ ریاستوں میں اگلے سال اپریل میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ مغربی بنگال کے علاوہ جہاں انتخابات ہونے والے ہیں وہ ہیں آسام، کیرالہ، تمل ناڈو اور پڈوچیری۔ بہار الیکشن کے لیے الیکشن کمیشن نے کورونا وائرس کے پیش نظر رہنما ہدایات جاری کر دی ہیں۔ سپریم کورٹ نے کورونا کے پیش نظر بہار الیکشن کو ملتوی کرنے کی عرضی خارج کر دی ہے اور کہا ہے کہ الیکشن طے شدہ وقت پر ہی ہوں گے۔ بہار میں بی جے پی، جنتا دل یو اور لوک جن شکتی پارٹی نے مل کر اور وزیر اعلی نتیش کمار کی قیادت میں الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ اپوزیشن یا نام نہاد عظیم اتحاد میں ابھی اختلاف کا دور چل رہا ہے۔ الیکشن آتے آتے اپوزیشن کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا کہا نہیں جا سکتا۔
Published: 30 Aug 2020, 7:56 PM IST
مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کی پارٹی ٹی ایم سی اور بی جے پی میں گھمسان کی لڑائی ہونے والی ہے۔ بی جے پی کسی بھی قیمت پر اس بار اسمبلی انتخابات جیتنے کی کوشش کرے گی۔ اس نے اس کے لیے بہت پہلے سے پلاننگ کر رکھی ہے۔ وہاں جو کچھ بھی کرنا پڑے بی جے پی کرے گی۔ وہاں کے گورنر جگدیپ دھنکڑ پہلے سے ہی فیصلہ کن لمحے میں بی جے پی کی طرفداری کے لیے موجود ہیں۔ ترنمول بھی اپنے طور پر اپنا قلعہ بچانے کے لیے جی توڑ کوشش کرے گی۔ اس کے لیے وہ ابھی سے ترنمول سے بی جے پی میں جانے والے کچھ اہم سیاست دانوں کی گھر واپسی کی حکمت عملی بنا رہی ہے۔
Published: 30 Aug 2020, 7:56 PM IST
آسام میں سی اے اے کی وجہ سے بی جے پی کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وہاں سی اے اے مخالف کئی سیاسی محاذ بن گئے ہیں جو اسمبلی انتخابات کے دوران بی جے پی کو ناکوں چنے چبوانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اگر اپوزیشن نے موثر حکمت عملی وضع کی تو آسام میں اس بار بی جے پی کا جیتنا آسان نہیں ہوگا۔
Published: 30 Aug 2020, 7:56 PM IST
یہ ایک حقیقت ہے کہ مرکز میں جس پارٹی کی حکومت ہوتی ہے ریاستوں میں اسمبلی انتخابات میں اسے آسانی ہوتی ہے۔ وہ پوری سرکاری مشینری اپنی انتخابی تشہیر میں جھونک دیتی ہے۔ اور بی جے پی تو اس میں ماہر ہے۔ وہ ڈرا دھمکا کر اور دوسرے مختلف بہانوں سے بھی مخالفین کو خاموش کرنے کا گُر جانتی ہے اور سام دام دنڈ بھید ہر حربہ اختیار کرکے اپنا کام نکالنے میں مہارت رکھتی ہے۔ لہٰذا مذکورہ ریاستوں میں اور اس دوران ہونے والے کچھ ضمنی انتخابات میں اسے کچھ بہت زیادہ رکاوٹوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
Published: 30 Aug 2020, 7:56 PM IST
لیکن اس کے باوجود بی جے پی کے لیے سب سے بڑا سہارا فرقہ وارانہ ماحول ہے۔ اگر انتخابات کے دوران جذباتی ایشوز نہ اٹھائے جائیں اور عوام کو مذہب کی بنیاد پر نہ بانٹا جائے تو پھر بی جے پی کی راہ آسان نہیں ہوتی۔ بی جے پی ایک ایسی پارٹی ہے جو بہت دور سے چلتی ہے اور بہت پہلے سے ہی پلاننگ کرتی ہے۔ لہٰذا ایسا لگتا ہے کہ مذکورہ انتخابات کے پیش نظر بھی اس نے سماجی ماحول بگاڑنے کی پوری تیاری کر لی ہے۔ رفتہ رفتہ ایک ایک واقعات سامنے آتے جائیں گے اور بی جے پی ان واقعات کی بنیاد پر عوام کو ہندو مسلم کھیل میں الجھا کر اپنا کام نکال لے گی۔
Published: 30 Aug 2020, 7:56 PM IST
ابھی پچھلے دنوں بنگلور میں ایک شخص نے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مجرمانہ ذہنیت کا ہے اور مسلم مخالف جذبات رکھتا ہے، ایک اہانت آمیز پوسٹ فیس بک پر اپ لوڈ کیا تھا جس کے نتیجے میں وہاں مسلمان سڑکوں پر آگئے، تشدد برپا ہو گیا اور پولیس فائرنگ میں تین افراد کی جانیں ضائع ہو گئیں۔ اگر پولیس نے پہلے ہی اس شخص کے خلاف کارروائی کی ہوتی تو یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔ لیکن مسلمانوں نے جذبات میں آکر پولیس تھانوں اور گاڑوں کو جو آگ لگائی وہ بھی غلط تھا اور ویسا بالکل نہیں ہونا چاہیے تھا۔
Published: 30 Aug 2020, 7:56 PM IST
سدرشن چینل کے مالک سریش چوانکے نے یو پی ایس سی میں کامیاب ہونے والے مسلمانوں اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے خلاف جو غلاظت پھیلائی ہے اور جس طرح مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا ہے وہ خود بہ خود نہیں ہو گیا۔ حالانکہ وہ پہلے بھی اس قسم کی خباثتیں پھیلاتا رہا ہے۔ لیکن اس بار ا س نے جو کچھ کیا وہ صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ یو پی ایس سی جیسے انتہائی غیر جانبدار، صاف شفاف اور باوقار ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچانے والا بھی ہے۔ اس شخص کا تعلق سنگھ پریوار سے ہے اور وزیر اعظم مودی، وزیر داخلہ امت شاہ اور آر ایس ایس کے رہنماؤں کے ساتھ اس کی تصاویر ہیں اور ان سے اس کا تعلق ہے۔ لہٰذا سیاسی مشاہدین کا خیال ہے کہ ا س کا یہ پروگرام ماحول کو خراب کرنے کے مقصد سے تیار کیا گیا ہے۔ آگے بھی وہ اس قسم کے خطرناک پروگرام کر سکتا ہے۔ اگر چہ سپریم کورٹ نے یہ کہتے ہوئے اس کے پروگرام پر اسٹے دینے سے انکار کیا تھا کہ بغیر نشر ہوئے کسی پروگرام پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ لیکن دہلی ہائی کورٹ نے اس پر اسٹے دے دیا۔
Published: 30 Aug 2020, 7:56 PM IST
گوہاٹی میں ایک آسامی ٹی وی چینل ”رنگونی“ ہے۔ اس پر ایک سیریل دکھایا جا رہا ہے ”بیگم جان“۔ اس کے دو اہم کرداروں یعنی ہیرو اور ہیروئن مسلمان اور ہندو ہیں۔ لڑکی ہندو ہے اور لڑکا مسلمان ہے۔ دونوں میں دوستی ہے اور مسلم لڑکا ہندو لڑکی کی مدد کرتا ہے۔ لیکن یہ سیریل ہندوتو وادیوں سے ہضم نہیں ہوا۔ ہندو جاگرن منچ، آل آسام برہمن یوتھ کونسل اور یونائٹیڈ ٹرسٹ آف آسام نے اس کے خلاف احتجاج کیا اور یہ کہتے ہوئے پولیس میںشکایت درج کرائی کہ اس سے ہمارے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس پر پابندی لگائی جائے۔ اس شکایت پر آسام پولیس نے اس سیریل پر دو ماہ کے لیے پابندی عاید کر دی۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ مذکورہ ہندو لڑکی کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک گھناونی مہم بھی چھیڑی گئی ہے اور اس کی شان میں نازیبا کلمات ادا کیے جا رہے ہیں اور اسے مختلف قسم کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
Published: 30 Aug 2020, 7:56 PM IST
اب آئیے ٹیپ کے بند پر۔ یہ خبر اترپردیش سے ہے۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ایک بار پھر لو جہاد کا نعرہ لگا دیا ہے۔ گزشتہ دنوں کانپور، میرٹھ اور لکھیم پور کھیری میں بعض ہندو لڑکیوں کی مسلم لڑکوں سے شادی کے واقعات پیش آئے ہیں۔ ان واقعات کے خلاف میرٹھ وغیرہ میں ہندوتو وادی تنظیموں نے مظاہرہ کیا ہے اور اسے لو جہاد کا نام دیا ہے۔ اس مظاہرے کے بعد یوگی جی منظر میں آتے ہیں اور محکمہ داخلہ کے سینئر افسران کو ہدایت دیتے ہیں کہ اس لو جہاد کو روکنے کے لیے جو بھی تیاری ہو سکے وہ کی جائے۔ حالانکہ شادی کرنے والی بعض لڑکیوں نے ویڈیو جاری کرکے اعلان کیا ہے کہ وہ بالغ ہیں اور انھوں نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے۔ لیکن ان شادیوں کو جبراً کرائی جانے والی شادی کہا جا رہا ہے اور اس کے خلاف پوری ریاست میں ایک ماحول تیار کیا جا رہا ہے۔ ذرا سوچیے کہ جب ریاست کا مکھیا خود ایسی ہدایات دے گا تو حکام تو کارروائی کریں گے ہی اور مسلم دشمن قوتوں کی حوصلہ افزائی ہوگی ہی۔ اب لو جہاد کے موضوع پر ایک بار پھر نیوز چینلوں پر ڈبیٹ ہونے لگی ہے اور امکان ہے کہ اس کا سلسلہ بڑھے گا اور چینل بھی اس فرقہ واریت کو ہمیشہ کی مانند ہوا دیں گے۔
Published: 30 Aug 2020, 7:56 PM IST
اس لیے ہم نے کہا کہ پیش آمدہ خطرات سے آگاہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ جو واقعات ہو رہے ہیں از خود ہو رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ سب ایک پلاننگ کا حصہ ہوں۔ ہندو لڑکیوں کی مسلم لڑکوں سے شادی بھی پلاننگ کا حصہ ہو سکتی ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ معاملہ یہیں ختم ہو جائے بلکہ خطرہ اس بات کا ہے کہ جوں جوں انتخابات کے دن قریب آئیں گے ایسے واقعات میں اضافہ ہوگا۔ لہٰذا عوام کو بہت زیادہ ہوشیار رہنے اور ایسے واقعات پر مشتعل نہ ہونے کی ضرورت ہے۔ شرپسند اور فسطائی قوتیں اس ملک کے ماحول کو ایک بار پھر بگاڑنے جا رہی ہیں۔
Published: 30 Aug 2020, 7:56 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 30 Aug 2020, 7:56 PM IST
تصویر: پریس ریلیز