ملک بڑا ہے یا انتخاب؟ عوامی فلاح وبہبود اہم ہے یا الیکشن میں کامیابی؟ اقدار افضل ہے یا صحت؟ ان سوالات کا جواب مختلف جماعتوں کے پاس مختلف ہے۔ اتر پردیش کے اندر انتخاب کی تاریخوں کے ساتھ 15؍ جنوری تک الیکشن کمیشن نے کورونا کے پیشِ نظر تمام انتخابی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی۔ اس تناظر میں اگر مندرجہ بالا سوالات کے جواب معلوم کرنے کی کوشش کی جائے تو کانگریس کا جواب یہ ملے گا کہ اس نے سب سے پہلے عوام کو کورونا کی وبا سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنی اعلیٰ اقدار کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے اپنی انتخابی مہم کو معطل کردیا، کیونکہ اس کے نزدیک الیکشن سے بڑا ملک ہے۔ کانگریس کا یہ فیصلہ اس صورت میں ایک غیرمعمولی فیصلہ قرار پاتا ہے جب اترپردیش میں اس کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی خواتین کی جدوجہد کی ایک علامت کے طور پر ابھری ہیں۔ لیکن اس نے عوامی مفاد پر اپنا سیاسی مفاد قربان کرتے ہوئے یہ اعلان کردیا کہ وہ ایسی کوئی ریلی نہیں کرے گی جس سے کورونا کے پھیلاؤ کا امکان بڑھے۔ گویا اس نے اپنے اس فیصلے سے یہ بتا دیا کہ اس کے نزدیک انتخاب سے زیادہ ملک اور ملک کے عوام کا مفاد زیادہ مقدم ہے۔
Published: undefined
ریاست میں سماج وادی پارٹی کی مقبولیت کے بارے میں کسی شک وشبہے کا اظہار نہیں کیا جاسکتا۔ مغربی یوپی سے لے کر مشرقی یوپی تک ہرجگہ اب سائیکل کی ہی دھوم نظر آرہی ہے۔ چھوٹی موٹی پارٹیوں سے اتحاد نے ابھی سے اس بات کے اشارے دینے شروع کر دئے ہیں کہ انتخابات کے بعد ریاست میں قائم ہونے والی حکومت کے سربراہ اکھلیش یادو ہی ہوں گے۔ اس کی ہر انتخابی ریلی میں عوام کے امڈنے والی بھیڑ ایک سے دوسری ریلیوں کا ریکارڈ توڑ رہی ہے۔ لیکن کانگریس کی راہ پر چلتے ہوئے اس نے بھی اپنی انتخابی مہم کو موقوف کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ سماج وادی کا یہ فیصلہ بھی ایسی صورت میں مزید اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے جب آئندہ کی حکومت پر اس کے قبضے کا امکان تمام سیاسی تجزیہ نگار کرنے لگے ہیں۔ بی جے پی کے غبارے میں ہوا بھرنے والے قبل ازانتخابی سروے کے ادارے بھی اس بات سے اعتراف کر رہے ہیں کہ سماج وادی کی مقبولیت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس کو ملنے والا ووٹ فیصد 40 سے زائد جاسکتا ہے۔ لیکن اپنی مقبولیت کے اس بلندی پر پہنچ کر بھی اکھلیش یادو نے اپنی انتخابی مہم کو بند کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ گویا انہوں نے ملک کو یہ بتا دیا ہے کہ ان کے نزدیک عوام کی فلاح وبہبود زیادہ اہمیت کا حامل ہے ناکہ انتخاب یا اس میں کامیابی حاصل کرنا۔
Published: undefined
اب بات کرتے ہیں ملک ہی نہیں بلکہ دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے آدرش وادی پارٹی بی جے پی کی۔ فی الحال مرکز اور اترپردیش دونوں جگہ بی جے پی برسرِ اقتدار ہے۔ ملک کو درپیش حالات کے ساتھ ہی عوام کی صحت وعافیت کا خیال رکھنا اس کی اولین ذمہ داری ہے، لیکن اس کے باوجود وہ ایسا نہیں کرسکی کیونکہ اس کے لئے نہ ملک پہلے ہے اور نہ ہی ملک کے عوام۔ اس کو اترپردیش سے اپنے اقتدار کے چھن جانے کا خوف ہے اور اس خوف نے اسے باولا کر دیا ہے۔ انتخاب کے اعلان سے قبل پردھان سیوک سے لے کر وزیرداخلہ تک اور بی جے پی صدر سے لے کر وزیر دفاع تک اترپردیش میں اپنا اڈہ جمائے ہوئے تھے۔ پردھان سیوک کے اترپردیش کے مسلسل دورے سے یہ گمان گزرنے لگا تھا کہ کہیں مرکزی حکومت اب اترپردیش سے ہی نہ چلائی جانے لگے۔ ہر روز ریلی ہر روز افتتاح پھر چاہے وہ خشک نہر کا ہی کیوں نہ ہو، پردھان سیوک کا معمول ہوچکا تھا۔ لیکن آدرش وادی پارٹی کو یہ توفیق نہیں ہوسکی کہ وہ کچھ دنوں کے لئے ہی سہی عوام کی بھی کوئی فکر کرلے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بی جے پی خود عوامی جلسوں کے وقوف کا فیصلہ کرکے دوسری پارٹیوں کے لئے مثال پیش کرتی لیکن وہ دوسری پارٹیوں کے پیش کردہ مثال پر بھی عمل نہ کرسکی۔
Published: undefined
وہ تو اچھا ہوا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی 15؍جنوری تک انتخابی سرگرمیوں پر روک لگا دی وگرنہ بعید نہیں ہمارے پردھان سیوک جی گزشتہ کل 9 جنوری کا اپنا پورا دن لکھنؤ میں ہی گزارتے۔ انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اترپردیش میں بھی کورونا کے مریضوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔ انہیں اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انتخابی ریلیاں کورونا کے پھیلاؤ کا اہم سبب بنیں گی۔ انہیں تو بس کسی بھی صورت اترپردیش جیتنا ہے اور اس کے لئے انہیں نہ بڑھتے ہوئے کورونا کی کوئی فکر ہے اور نہ ہی عوام کی۔ بی جے پی کو انتخابی کمیشن کی پابندی کے بعد مجبوراً اپنی مہم بند کرنی پڑی ہے ورنہ اترپردیش میں روزآنہ ہزاروں لوگ کمل کھلانے کی خاطر جمع کئے جارہے تھے اور رات میں کورونا کے ڈر سے کرفیو لگا دیا جاتا تھا۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ کانگریس یا سماج وادی پارٹی نے انتخاب کے اعلان کے بعد یا الیکشن کمیشن کی پابندی کے بعد اپنی ریلیوں کو بند کرنے کا اعلان کیا، بلکہ کورونا کی تیسری لہر کی آمد کے ساتھ ہی ان پارٹیوں نے یہ فیصلہ کرلیا۔ بی ایس پی،عام آدمی پارٹی اور ایم آئی ایم جن کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے، ان کے ذریعے انتخابی ریلیاں نہ کرنے کا فیصلہ سمجھا جاسکتا ہے لیکن جن پارٹیوں کو عوامی مقبولیت حاصل ہیں ان کا ازخود انتخابی ریلیوں کو موقوف کرنے کا فیصلہ ایک مثال ہے۔ مگر افسوس کہ سب سے بڑی آدرش وادی پارٹی کا ڈھنڈورا پیٹنے والی بی جے پی نے جو آدرش پیش کیا ہے وہ ’سب سے پہلے اقتدار اور سب سے بعد میں بھی اقتدار‘ کا ایک جیتا جاگتا مظہر ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined