سیاسی

انتخابی نتَائج: مودی کا جادو اتر رہا ہے... سہیل انجم

ان انتخابی نتائج سے ایک بات واضح طور پر سامنے آئی ہے کہ اب مودی کا جادو اتر رہا ہے۔ اب عوام جذباتی باتوں کے جھانسے میں آنے والے نہیں۔ انھیں روزگار اور ملازمتوں سے مطلب ہے، ہاوڈی مودی سے نہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

مہاراشٹر اور ہریانہ کے اسمبلی انتخابات پر سب کی نظریں لگی ہوئی تھیں۔ حالانکہ یہ الیکشن بالکل یکطرفہ تھا۔ بی جے پی ہی میدان میں تھی۔ اس کے مد مقابل کوئی نہیں تھا۔ اگر کوئی تھا بھی تو بہت کمزور تھا۔ نہ وسائل، نہ حوصلہ۔ نہ جرأت نہ ولولہ۔ جو کچھ تھا سب بی جے پی کے پاس تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایگزٹ پول میں دونوں ریاستوں میں بی جے پی کی شاندار واپسی کی قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں۔

Published: 27 Oct 2019, 9:11 PM IST

لیکن جب نتائج سامنے آئے تو یہ قیاس آرائیاں دھری کی دھری رہ گئیں۔ بی جے پی اپنا سابقہ ریکارڈ دوہرانے میں ناکام رہی۔ نہ تو ہریانہ میں اسے اکثریت ملی اور نہ ہی مہاراشٹر میں۔ مہاراشٹر میں شیو سینا کے ساتھ اس کا اتحاد تھا۔ اتحاد کو تو اکثریت مل گئی لیکن بی جے پی کو بہت کچھ کھونا پڑا اور اب بھی وہ کلی طور پر اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہاں بلا روک ٹوک حکومت بنا لے۔ شیو سینا کے تیور اسے گھبراہٹ میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔

Published: 27 Oct 2019, 9:11 PM IST

بی جے پی اور خاص طور پر وزیر اعظم نریند رمودی اور بی جے پی صدر امت شاہ نے اسے بھی قومی الیکشن بنانے کی کوشش کی تھی۔ چونکہ ان لوگوں کے پاس حقیقی ایشوز پر بات کرنے کے لیے کچھ ہے نہیں اس لیے پاکستان اور ساورکر کا راگ الاپا گیا۔ الیکشن سے ایک روز قبل پاکستان کے اندر فوجی کارروائی کروائی گئی اور نہ صرف بی جے پی اور حکومت کے ذمہ داران بلکہ آرمی چیف بھی اس کی تشہیر میں لگے رہے۔ فرضی راشٹرواد اور قومی سلامتی کے ڈھول پیٹے جاتے رہے۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!

Published: 27 Oct 2019, 9:11 PM IST

صرف مہاراشٹر ہی میں نہیں بلکہ ہریانہ میں بھی اسمبلی الیکشن کو پارلیمانی الیکشن بنانے کی کوشش کی گئی۔ وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر نے ہریانہ میں بھی این آر سی نافذ کرنے کا احمقانہ بیان دیا۔ کہاں آسام اور کہاں ہریانہ۔ ہریانہ کی سرحد تو کسی دوسرے ملک سے متصل نہیں ہے تو پھر وہاں این آر سی کی کیا ضرورت۔ لیکن نہیں بی جے پی نے ضرورت پیدا کرنے کی کوشش کی تاکہ اس کی آڑ میں ہندووں اور مسلمانوں میں تفریق پیدا کی جائے اور انتخابی کامیابی کی فصل کاٹی جائے۔

Published: 27 Oct 2019, 9:11 PM IST

کھٹر کے راگ میں یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی نے بھی راگ ملانے کی کوشش کی اور انھوں نے بھی ضمنی انتخابات میں کامیابی کے لیے این آر سی کو اچھالا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس بارے میں پولس سربراہ کے ذریعے احکامات بھی جاری کروائے گئے۔ لیکن یوگی کا یوگ بھی کسی کام نہیں آیا۔ یہاں تک کہ کملیش تیواری کا قتل بھی کوئی رنگ نہیں لا سکا۔

Published: 27 Oct 2019, 9:11 PM IST

مہاراشٹر میں یہ جتانے کی کوشش کی گئی کہ این سی پی کے رہنما شرد پوار کی سیاست ختم ہو چکی ہے اور ہریانہ میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ کانگریس دفن ہو گئی ہے۔ لیکن شرد پوار اور کانگریس نے بی جے پی کو بتا دیا کہ وہ کسی غلط فہمی میں نہ رہے۔ نہ تو شرد پوار آوٹ آف ڈیٹ ہوئے ہیں اور نہ ہی کانگریس۔ اسی طرح ہریانہ میں بھی کانگریس زندہ ہے اور پوری قوت کے ساتھ زندہ ہے۔ بی جے پی کو 40 تو کانگریس کو 31 نشستیں ملیں۔ اگر کانگریس بے جان ہوتی تو کیا اسے اتنی نشستیں ملتیں۔

Published: 27 Oct 2019, 9:11 PM IST

ہریانہ میں سابق وزیر اعلیٰ بھوپندر سنگھ ہڈا اور کماری شیلجا نے زبردست محنت کی اور ان دونوں کی محنت رنگ لائی۔ اسی طرح مہاراشٹر میں کانگریس کے کیڈر نے بے پناہ محنت کی جس کا نتیجہ اس شکل میں برآمد ہوا کہ بی جے پی انتخابی نتائج دیکھ کر ہکا بکا ہو گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنی جھینپ مٹانے کے لیے وزیر اعظم مودی اور بی جے پی صدر امت شاہ نے اسے عدیم المثال کامیابی قرار دے دیا۔

Published: 27 Oct 2019, 9:11 PM IST

جس وقت بی جے پی صدر دفتر پر ریلی کا اہتمام کیا گیا تو بڑی تعداد میں بی جے پی کارکن جمع ہوئے۔ حالانکہ پہلے کے مقابلے میں ان کی تعداد کم تھی۔ لیکن ایک بات بطور خاص محسوس کی گئی کہ کسی کے چہرے پر رونق نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب امت شاہ بولنے آئے اور انھوں نے بھارت ماتا کی جے کا نعرہ لگانے کو کہا تو حاضرین نے کسی جوش کا مظاہرہ نہیں کیا۔ نتیجتاً امت شاہ کو کہنا پڑا کہ ہم کامیاب ہوئے ہیں ذرا زور سے نعرہ لگائیں۔ اس کے باوجود نعرے میں کوئی دم نہیں تھا۔

Published: 27 Oct 2019, 9:11 PM IST

وہاں موجود راج ناتھ سنگھ کے چہرے پر کوئی رونق تھی اور نہ ہی جے پی نڈا کے چہرے پر۔ خود مودی اور شاہ کے چہرے اترے ہوئے تھے۔ مودی نے چھوٹی سی تقریر کرکے رخصت لے لی۔ ان کو بھی انتخابات میں شکست کا احساس تھا لیکن کارکنوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے انھوں نے اس کامیابی کو ”ابھوت پوروا“ یعنی عدیم المثال قرار دیا۔ اگر دونوں ریاستوں میں بی جے پی کو تن تنہا واضح اکثریت مل جاتی تو وہ اس جیت کو پتا نہیں کیا کہتے۔

Published: 27 Oct 2019, 9:11 PM IST

ان انتخابات کے نتائج سے ایک بات بہت واضح طور پر سامنے آئی ہے کہ اب مودی کا جادو اتر رہا ہے۔ حقیقی مسائل کے انبار میں دبے عوام جذباتی باتوں کے جھانسے میں آنے والے نہیں ہیں۔ انھیں روزگار سے مطلب ہے۔ ملازمتوں سے مطلب ہے۔ معاشی استحکام سے مطلب ہے۔ ہاوڈی مودی سے نہیں۔ ہاوڈی مودی میں مودی نے کہا تھا کہ ہندوستان میں سب اچھا ہے۔ لیکن اب وہ سوچ رہے ہوں گے کہ کیا انھوں نے ٹھیک کہا تھا۔ ان نتائج نے بتا دیا کہ بی جے پی کے لیے سب اچھا نہیں ہے۔ عوام کے لیے تو پہلے ہی کچھ اچھا نہیں تھا’

Published: 27 Oct 2019, 9:11 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 27 Oct 2019, 9:11 PM IST