بہارمیں نتیش کماراور بی جے پی نے جو انتہائی غیر اخلاقی اورعامیانہ سیاسی چال چلی،اس سے بہت زیادہ حیرت تو خیرکسی کو بھی نہیں ہوئی البتہ حد درجہ افسوس اور صدمہ کم از کم اُن لوگوں کو ضرور ہوا جو سیکولرزم کے حامی اور فرقہ واریت کے مخالف ہیں۔ حیرت اسلئے نہیں ہوئی کیونکہ راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس سے اتحاد کے باوجود نتیش کمارماضی قریب میں بھی متعدد موقعوں پر بی جی پی حکومت کے فیصلوں کی حمایت کرتے نظر آئے تھے۔ گزشتہ سال8 نومبر کو جب مودی نے ٹیلی ویزن کی اسکرین پر نمودار ہوکر کرنسی تنسیخ کرنے کا نادر شاہی فرمان سنایا تھاتو اپنے اتحادیوں اور دیگر اپوزیشن جماعتوں اور قائدین کے نقطہ نظر کے برعکس نتیش کمار نے اس کی کھل کرستائش کی تھی۔اسی طرح حالیہ صدارتی انتخابات میں بھی نتیش کمار نے این ڈی اے امیدوار رام ناتھ کووند کی حمایت کا اعلان کرکے اپوزیشن کی پوری حکمت عملی کو ہی تہس نہس کر ڈالا۔ان کے علاوہ دوسرے موقعوں پر بھی نتیش کمار عظیم اتحاد میں رہنے کے باوجود اپنے اتحادیوں کویہ احساس دلاتے رہے تھے کہ وہ گرگٹ کی طرح رنگ بدل کرایک بارپھر بی جے پی کے گلے لگ سکتے ہیں اور آخر کار انہوں نے رنگ اور چولہ بدل ہی لیا۔
نتیش کمارنے آر جے ڈی اور کانگریس سے ناطہ توڑ کر یکلخت بی جے پی کا دامن تھام لیا اور اس قدم کے لئے عظیم اتحاد کی حکومت میں اپنے نائب لالو پرساد یادوکے بیٹے تیجسوی پرسادکے خلاف بدعنوانی کے الزامات کو بطور عذر پیش کیا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نتیش کے پاس یہی ایک آخری راستہ بچا تھا؟ہرگز نہیں۔اگراُن میں آر جے ڈی اور کانگریس سے اتحادکے تئیں اخلاص ہوتا تو وہ پہلے تو یہی کہہ سکتے تھے کہ تیجسوی کے خلاف بی جے پی کے ذریعہ سی بی آئی وغیرہ کی کارروائی لالو کنبہ کے ساتھ انتقامی سیاست کا نتیجہ ہے نیز یہ کہ ابھی صرف الزامات ہیں، ثابت ہونے پر تیجسوی کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔دوسرا راستہ یہ تھا کہ وہ اتحاد توڑنے سے پہلے بحیثیت وزیر اعلی تیجسوی یادو سے استعفیٰ طلب کر سکتے تھے۔ اگر تیجسوی استعفیٰ نہیں دیتے تو انہیں برخواست کر سکتے تھے۔ اسکے بعد وہ اتحاد سے الگ ہوتے تو اسے جائز کہا جا سکتا تھا۔ لیکن رات کی تاریکی میں انکا اتحاد سے الگ ہونا، استعفیٰ دینا، بی جے پی سے اتحاد قائم کرنا اور پھر گورنر سے دوسری ہی صبح حکومت بنانے کا وقت لے لینا ، ظاہر کرتا ہے کہ یہ سب کچھ منصوبہ بند تھا۔بی جے پی کا دامن تھامنے کے پیچھے نتیش کمار کی کیا مصلحتیں تھیں، یہ تو وہ خود جانیں، لیکن انہوں نے یہ فیصلہ اگر اپنے سیاسی فائدے کے لئے کیا ہے تو شاید یہ انکی بہت بڑی سیاسی غلطی ہے۔
نتیش کمار نے بی جے پی کا دامن ایسے وقت میں تھاما ہے جب فرقہ پرستی اور مسلم دشمنی کے حوالے سے اس جماعت کی امیج نہ صرف اندرون ملک بلکہ پوری دنیا میں بری طرح خراب ہو چکی ہے۔ گائے کے تحفظ کے نام پر حکمراں جماعت کے حامیوں نے مسلمانوں کی لنچنگ کا جو خوفناک سلسلہ شروع کیا ہے، دلتوں کی بے رحمانہ پٹائی کی ہے، لوگوں کو ہراساں کیا ہے اور اس قسم کی کارروائیوں کو حکومت کی خاموش تائیدحاصل ہے، اس سے پوری دنیا آگاہ ہو چکی ہے کہ کس طرح ایک جمہوری ملک میں مذہب کے نام پر اقلیتوں اور کمزور طبقات کو کچلا جا رہا ہے اور قانون کی دھجیاں اڑانے والے لوگ آزاد گھوم رہے ہیں، پولس میں ان کے خلاف ایف آئی تک درج نہیں کی جا رہی ہے۔ لوگ کیا کھائیں کیا پئیں ، یہ حکومت طے کر رہی ہے، میڈیا کو زر خرید غلام بنا لیا گیا ہے ، میڈیا کے اداروں اور صحافیوں کو جنکی غیرت خود کو بکاؤ مال بنانے کی اجازت نہیں دے رہی ہے، حکومت کے اشارے پر حکومتی ایجنسیاں ان کے پیچھے پڑ گئی ہیں، حکومت کے خلاف بولنے اورلکھنے کی آزادی نہیں ہے، اظہار خیال اور اظہار رائے کی آزادی پر قد غن لگایا جا رہا ہے، فرقہ واریت کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے، ملک کے کروڑوں مسلمان ، دلت اور کمزور طبقات خوف و ہراس کی زندگی گزار رہے ہیں،ملک کے تمام غیر ہندوؤں پر ہندوتوا تھوپنے کی مسلسل کوشش کی جا رہی ہے۔
ان تمام کھلے حقائق کی موجودگی میں اگر نتیش کمار اس جماعت کی گود میں بیٹھ کر سیکولر ہونے کا دعوی کر رہے ہیں تو اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات کیا ہو سکتی ہے۔ سیکولرز م اور کمیونلزم ایک دوسری کی ضد ہیں، ان کا آپس میں ملنا ممکن نہیں۔ کیا بی جے پی کے پارٹنر رہ کر وہ اس فرقہ پرست جماعت کی اقلیت ، مسلم، دلت مخالف پالیسی کی مخالفت کر سکیں گے۔ ظاہر ہے کہ ان میں شیو سینا جیسی جرات بھی نہیں جوہم خیال اور اتحادی ہوتے ہوئے بھی بی جے پی کے خلاف موقع بہ موقع لب کشائی کرتی رہتی ہے۔سیکولر حکومت کو منہدم کرکے بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کے بعد اگر وہ ایوان میں یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں کسی سے سیکولرزم کاسبق لینے کی ضرورت نہیں ہے تو ظاہر ہے کہ انکی اس بات میں کوئی وزن نہیں ہے اور اتنا بھی حوصلہ نہیں ہے کہ وہ علی الاعلان یہ قبول کر لیں کہ اب انہوں نے سیکولرزم کوقربان کر دیا ہے۔ مشہور صحافی ونودد عا نے درست کہا ہے کہ نتیش نے بی جے پی سے ناطہ جوڑ کر صرف سیکولرز م کا ہی نہیں بلکہ اپنی مان، مریادا، سمان، چال، چرتر، چہرہ سب چیز کا بلیدان کیا ہے ۔
نتیش کمار اگر یہ سمجھنے کی بھی نادانی کر رہے ہیں کہ وہ اس تبدیل شدہ چہرے اور چرتر کے ساتھ2019 کے پارلیمانی انتخابات میں عوام کے پاس جائیں گے تو انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا۔بالکل سادہ سی بات ہے کہ عوام نے انہیں بی جے پی کے خلاف حکومت بنانے کے لئے ووٹ دیا تھالیکن وہ قلابازی کھا کر بی جے پی کو ہی تحفہ میں اپنی حکومت طشت میں رکھ کر پیش کر چکے ہیں۔ عوام اس دغابازی کے لئے شاید انہیں معاف نہیں کر سکیں گے۔ اسکے ساتھ ہی حکمراں بن کر بی جے پی اور ہمنوا تنظیموں کے کارندے ریاست میں کیا گل کھلائیں گے، اس کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ریاست میں مسلمانوں، دلتوں اور کمزور طبقات کو پریشان کرنے کی ایک نئی لہر شروع ہو سکتی ہے اور نتیش کے لئے انہیں روکنا مشکل ہو سکتا ہے۔بی جے پی بھی کتنے دنوں تک نتیش پر اعتبار کر سکے گی، کہنا مشکل ہے ۔وہ یہ سوچنے میں حق نجانب ہوگی کہ جو شخص اپنے پرانے دوست، اصول سب کچھ اپنے فائدے کے لئے چھوڑ سکتا ہے وہ اسکے لئے کیوں کر بھروسے کے لائق ہوسکتا ہے؟
سچائی یہ ہے کہ اس پورے کھیل میں فائدہ صرف اور صرف بی جے پی کا ہوا ہے ، اسے حکومت حاصل ہو گئی۔ نتیش کو کچھ نیا توحاصل نہیں ہوا ہے۔ وہ وزیر اعلی پہلے بھی تھے، اب بھی ہیں۔ البتہ نقصان یہ ہوا کہ ان کی امیج ایک سیکولر لیڈر کی تھی، وہ اب یقینا باقی نہیں رہی۔ نتیش اصول پسند کہے جاتے تھے، اب انہیں کون اصول پسند سمجھے گا۔ وہ سیکولر اتحاد میں رہتے ہوئے 2019کے الیکشن میں مودی کے مقابل وزارت عظمی کے امید وار اور دعویدار ہو سکتے تھے لیکن اب بی جے پی کے پالے میں جاکر انہوں نے خود ہی اپنا قد گھٹا لیا۔ پچھلے پارلیمانی اور ریاستی الیکشن میں سیکولر اتحاد میں شامل رہنے سے انہیں جو فائدہ ہوا تھاوہ بھی نہیں ہو سکے گا۔ ظاہر ہے کہ مسلمان انہیں ووٹ نہیں دیں گے اور یادو ووٹ بھی حاصل نہیں ہو سکیں گے۔ نتیش کہتے ہیں کہ انہوں نے تیجسوی کی بدعوانی، جو ابھی قانوناً ثابت نہیں ہوئی ہے، کی وجہ سے عظیم اتحاد سے ناطہ توڑا ۔تو کیا وہ سمجھتے ہیں کہ اس ملک کو فرقہ پرستی سے خطرہ نہیں ہے؟ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ بدعنوانی کے مقابلے فرقہ پرستی ملک کے لئے زیادہ بڑا خطرہ ہے۔ دوسری طرف عوام یہ محسوس کر رہے ہیں کہ بی جے پی پہلی فرصت میں اپنے سبھی مضبوط سیاسی حریفوں کو نمٹا رہی ہے۔ لالو یادو اور انکے کنبہ کے خلاف کارروائی بھی بی جے پی کی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اس وجہ سے الیکشن کے وقت آر جے ڈی کوووٹروں کی ہمدردی حاصل ہو سکتی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined