شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کا سلسلہ اگرچہ اب اس طرح سے نہیں چل رہا ہے جیسا کہ پہلے چلتا تھا تاہم سوشل میڈیا پر اس کے خلاف آوازیں تو اٹھ ہی رہی ہیں۔ نہ صرف سی اے اے کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں بلکہ احتجاج کرنے والوں کی گرفتاریوں کے خلاف بھی بلند ہو رہی ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے بلند آواز جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ریسرچ اسکالر اور جامعہ کوآرڈینیٹشن کمیٹی کی رکن صفورہ زرگر کی گرفتاری کے خلاف اٹھی۔ نہ صرف ہندوستان کے اندر ان کی گرفتاری کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی اور انھیں رہا کرنے کا پرزور مطالبہ کیا گیا بلکہ بیرون ملک سے بھی زوردار آوازیں اٹھیں۔ بہر حال اب انھیں تقریباً ڈھائی ماہ کی جیل کے بعد ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔
Published: 28 Jun 2020, 6:40 PM IST
سی اے اے مخالف اس احتجاج نے جو جامعہ ملیہ اسلامیہ سے شروع ہوا تھا اور جس کو شاہین باغ کی خواتین نے اپنی جرأت و ہمت سے زبردست تقویت فراہم کی تھی پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کی تھی۔ اور اب جبکہ کرونا وائرس اور لاک ڈاون کی آڑ میں اس احتجاجی تحریک میں پیش پیش رہنے والوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے تو یہ معاملہ بھی پوری دنیا میں اٹھ رہا ہے۔
Published: 28 Jun 2020, 6:40 PM IST
اس سلسلے میں سب سے بڑے اور طاقتور عالمی ادارے اقوام متحدہ نے بھی آواز بلند کی ہے۔ دو تین روز قبل اقوام متحدہ کے ماہرین نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں تحریک چلانے والوں کی گرفتاریوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے اور یہاں تک کہا گیا ہے کہ ان گرفتاریوں کا مقصد یہ ہے کہ سول سوسائٹی کو یہ پیغام دیا جائے کہ حکومت کی مخالفت برداشت نہیں کی جائے گی۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ جن کو گرفتار کیا گیا ہے ان کی غلطی صرف اتنی تھی کہ انھوں نے ایک قانون کے خلاف آواز بلند کرنے کے اپنے جمہوری حق کا استعمال کیا۔
Published: 28 Jun 2020, 6:40 PM IST
رپورٹ میں احتجاج کرنے والوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کو امتیازی قرار دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں بی جے پی لیڈر کپل مشرا کی مثال پیش کی گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف تو کارروائی کی گئی لیکن کپل مشرا کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور نہ ہی ان کی مبینہ اشتعال انگیز تقریر کی کوئی جانچ کی گئی۔ حالانکہ ان کی تقریر کے ایک روز بعد ہی شمال مشرقی دہلی میں فسادات پھوٹ پڑے تھے۔
Published: 28 Jun 2020, 6:40 PM IST
اقوام متحدہ کے ماہرین نے انسانی حقوق کے کارکنوں اور خاص طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جے این یو کے طلبہ کے خلاف خطرناک قانون کے تحت کارروائی پر بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صفورہ زرگر، اکھل گوگوئی اور دوسروں کے خلاف جن دفعات کے تحت کارروائی کی گئی ہے وہ باعث تشویش ہے۔ خیال رہے کہ صفورہ زرگر کو پہلے جعفرآباد میں ایک سڑک بند کرنے کے الزام می گرفتار کیا گیا تھا اور عدالت نے انھیں ضمانت دے دی تھی۔ لیکن دہلی پولیس نے اسی روز انھیں دہلی میں فساد بھڑکانے کی سازش کے الزام میں گرفتار کر لیا تھا اور ان پر انتہائی خطرناک قانون یو اے پی اے لگا دیا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت جلد ضمانت نہیں ہوتی۔ وہ تو صفورہ چونکہ حمل سے ہیں اس لیے انسانی بنیاد پر انھیں ضمانت مل گئی ورنہ بہت مشکل ہو جاتی۔
Published: 28 Jun 2020, 6:40 PM IST
بہر حال اقوام متحدہ کے ماہرین نے حکومت اور پولیس کی کارروائیوں کی سخت گرفت کی ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ سی اے اے کے خلاف تحریک چلانے والوں کو اس لیے گرفتار کیا جا رہا ہے تاکہ سماج کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ حکومت کے خلاف جو بولے گا اس کے خلاف کارروائی ہوگی اور حکومت کے فیصلوں کی مخالفت برداشت نہیں کی جائے گی۔
تقریباً اسی موقع پر ہندوستان کے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے بھی اپنی رپورٹ جاری کی ہے۔ جب پندرہ دسمبر کو جامعہ ملیہ میں پولیس ایکشن ہوا تھا اور پولیس نے لائبریری میں گھس کر وہاں پڑھائی کر رہے طلبہ کو لاٹھیوں سے پیٹا تھا تو اس کے خلاف پہلے پورے ملک میں اور اس کے بعد پوری دنیا میں ہنگامہ ہوا تھا۔ ملک کی بیشتر یونیورسٹیوں کے طلبہ اور دوسرے ملکوں کے تعلیمی اداروں کے طلبہ بھی جامعہ کے طلبہ کی حمایت میں آگئے تھے اور پولیس کارروائی کی انھوں نے مذمت کی تھی۔
Published: 28 Jun 2020, 6:40 PM IST
اس واقعہ کی جانچ کے لیے انسانی حقوق کمیشن کے ایک وفد نے جامعہ کا دورہ کیا تھا۔ حالانکہ اس سے کوئی ایسی امید نہیں تھی کہ وہ جلد اپنی رپورٹ دے گا اور طلبہ کے حق میں دے گا لیکن یہ امید بھی نہیں تھی کہ اس کی رپورٹ میں پولیس تشدد کے لیے طلبہ کو ہی مورد الزام ٹہرا دیا جائے گا۔ اس نے جو رپورٹ جاری کی ہے وہ مکمل طور پر یکطرفہ ہے اور اس میں دہلی پولیس کو بچانے کی کوشش کی گئی ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ احتجاج کرنے والوں نے تشدد کیا۔ سرکاری و غیر سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا۔ بسوں کو آگ لگائی اور پولیس والوں پر پتھر اور پٹرول بم پھینکے۔ وہ بھاگتے ہوئے جامعہ کے کیمپس میں گھسے جس پر مجبور ہو کر پولیس کو وہاں جانا پڑا۔ کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جو تحریک چلائی گئی وہ در اصل مقامی سیاست دانوں اور نیتاؤں نے چلائی تھی اور انھوں نے چالاکی کے ساتھ طلبہ سے یہ کام کروایا۔ اس کے مطابق یہ کوئی بہت بڑی سازش تھی اور اس سازش کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔
Published: 28 Jun 2020, 6:40 PM IST
کمیشن نے دہلی پولیس کے بارے میں صرف اتنا کہا ہے کہ اس نے جو کچھ کیا اس سے بچا جا سکتا تھا۔ لائبریری میں آنسو گیس کے گولوں کی دستیابی کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ یہ پولیس کا غیر ذمہ دارانہ رویہ تھا اور پولیس اس سے بچ سکتی تھی۔ اس نے متعلقہ ذمہ داروں سے کہا ہے کہ وہ لائبریری میں غیر ضروری طریقے سے لاٹھیاں چلانے والے پولیس والوں کی شناخت کریں اور ان کے خلاف پولیس ضابطے کے مطابق کارروائی کریں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ جامعہ میں غیر قانونی طور پر لوگ اکٹھا ہوئے اور لا اینڈ آرڈر کو قائم رکھنا پولیس کی ذمہ داری ہے اسی لیے اس نے کارروائی کی۔
Published: 28 Jun 2020, 6:40 PM IST
اس طرح اس نے تمام تر ذمہ داری جامعہ کے طلبہ پر ڈال دی ہے اور پولیس کو خاطی قرار دینے سے خود کو بچا لیا ہے۔ پولیس کارروائی کے سلسلے میں اس نے جو تبصرہ کیا ہے وہ پولیس کی حمایت میں جاتا ہے اور طلبہ کے احتجاج کے سلسلے میں جو تبصرہ کیا ہے وہ طلبہ کے خلاف جاتا ہے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا ہے کہ قومی انسانی حقوق کمیشن سے نہ پہلے کوئی امید تھی اور نہ اب ہے۔ وہ اگر چہ آزاد ادارہ ہے لیکن حکومت کے زیر اثر ہے۔ اسی لیے اس کی رپورٹ یکطرفہ ہے جس کی قطعی حمایت نہیں کی جا سکتی۔
Published: 28 Jun 2020, 6:40 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 28 Jun 2020, 6:40 PM IST
تصویر: پریس ریلیز