لوک سبھا 1989 کے انتخابات سے ہندوستانی سیاست میں مخلوط حکومت کا دور شروع ہوا، اس دور میں بہت سی علاقائی پارٹیاں مضبوط ہوئیں، بعد میں ان علاقائی پارٹیوں نے دہلی میں حکومت بنوانے میں بھی اہم رول نبھائے۔ اسی کے ساتھ شروع ہوئی منڈل اور کمنڈل کی سیاست۔ کہا جاتا ہے کہ کانگریس سے ہی الگ ہوئے وی پی سنگھ نے اپنی منڈل کی سیاست سے ذاتیات کو فروغ دیا، وی پی سنگھ نے پسماندہ ذاتوں کو ریزرویشن پر بنی منڈل کمیشن کی سفارشات کو نافذ کر دیا، اس کا زبردست ردعمل ہوا، ریزرویشن مخالف ان کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے، لیکن پسماندہ طبقوں سے انہیں زبردست حمایت ملی، پسماندہ طبقے کو اچھی تعلیم، روزگار کے وعدے کے ساتھ بہت سی نئی نئی پارٹیاں اس دور میں وجود میں آئیں۔
اسی دور میں بی جے پی نے رام مندر کا ایشو بھی اچھالا، اس کے ساتھ ہی منڈل اور کمنڈل کی سیاست اپنے عروج پر تھی، 1989 کے انتخابات میں بی جے پی نے رام مندر کو اپنا اہم انتخابی ایشو بنا لیا، آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد سمیت کئی دوسری تنظیموں کے ساتھ مل کر بی جے پی نے رام مندر ایشو پر کئی پروگرام اور جلسے منعقد کیے، بی جے پی کو اس کا انتخابی فائدہ بھی ملا۔ 1984 میں صرف دو سیٹ جیتنے والی بی جے پی کو اس الیکشن میں 85 سیٹیں ملیں، جنتا دل کے 143 امیدوار الیکشن جیتنے میں کامیاب رہے، سی پی ایم 33 اور سی پی آئی کو 12 نشستیں حاصل ہوئیں، حالانکہ کانگریس 197 سیٹ جیت کر سب سے بڑی پارٹی بنی لیکن راجیو گاندھی نے حکومت بنانے سے انکار کر دیا، ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپوزیشن میں بیٹھنے کا مینڈیٹ ملا ہے، اس کے بعد سے شروع ہوتا ہے مخلوط حکومتوں کا دور جو اب تک جاری ہے۔
Published: undefined
اکثریت نہ ہونے کا بعد بھی صدر آر وینكٹ رمن نے سب سے بڑی پارٹی ہونے کی وجہ سے کانگریس کو حکومت بنانے کی دعوت دی، ایسا پہلی بار تھا جب ہندوستان کے کسی صدر نے حکومت بنانے کے لئے سب سے بڑی پارٹی کو دعوت دی تھی، لیکن راجیو گاندھی نے حکومت بنانے سے انکار کر دیا، اس کے بعد صدر نے وی پی سنگھ کو حکومت بنانے کی دعوت دی، مرکز میں جنتا دل اور دوسری علاقائی پارٹیوں کی مدد سے مرکز میں نیشنل فرنٹ کی حکومت تشکیل ہوئی، وی پی سنگھ اس اتحاد کے رہنما بنائے گئے، نیشنل فرنٹ کی حکومت کو دو مخالف نظریے کی جماعتوں نے کانگریس کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے باہر سے حمایت دی، یہ پارٹیاں تھیں بی جے پی اور لیفٹ فرنٹ۔
اگرچہ ان پارٹیوں کے تعاون سے وی پی سنگھ اقتدار کے تخت پر تو بیٹھ گئے، لیکن یہ اتحاد کی سیاست ملک کو مستحکم حکومت دینے میں ناکام رہی۔ وی پی سنگھ کی حکومت ایوان میں اعتماد کا ووٹ ہار گئی، 11 مہینے میں ہی انہیں استعفی دینا پڑا، اس کے بعد جنتا دل (سوشلسٹ) کے چندرشیکھر کو وزیر اعظم کے طور پر حلف دلایا گیا، لیکن انہیں بھی بہت جلد استعفی دینا پڑا، آخر کار صدر آر وینكٹ رمم کو مجبوراً لوک سبھا تحلیل کرنی پڑی، اس کے بعد 1991 میں انتخابات کرائے گئے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined