وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ راجستھان میں اتوار کو دی گئی انتہائی قابل اعتراض تقریر کے خلاف پورا ملک کھڑا دکھائی دے رہا ہے۔ کانگریس اور سی پی ایم نے اس معاملے کی شکایت الیکشن کمیشن سے کی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں ملک کے شہریوں نے الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر معاملے کا نوٹس لینے اور مناسب کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ اس سب کے درمیان وزیر اعظم نے تقریباً انہی الفاظ کو اتر پردیش کی علی گڑھ ریلی میں دہرا دیا۔
Published: undefined
نریندر مودی نے راجستھان میں کہا تھا کہ اقتدار میں آنے پر کانگریس ملک کی ملکیت لوگوں سے چھین کر دراندازوں اور زیادہ بچے پیدا کرنے والوں کو تقسیم کر دے گی۔ واضح طور سے ان کا اشارہ مسلم طبقہ کی طرف تھا۔ انھوں نے یہاں تک کہا کہ کانگریس کا ارادہ ملک کی خواتین کا منگل سوتر چھیننا ہے۔ مودی نے (جھوٹ بولتے ہوئے) کہا کہ کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں ایسا کہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کانگریس کے انتخابی منشور میں اس قسم کی بات ہونا تو دور، مسلم یا ہندو لفظ تک کا استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ کانگریس نے 5 اپریل کو اپنا انتخابی منشور جاری کیا تھا جسے وزیر اعظم نے مسلم لیگ کا انتخابی منشور کہا تھا۔
Published: undefined
وزیر اعظم جس قسم کی تقریر کر رہے ہیں، وہ منصوبہ بند اور ایک سازش کے تحت حقائق کو چھپانے کی کوشش ہے۔ سوال ہے کہ آخر کیوں؟ آخر ایک ایسا لیڈر جو خود کو دنیا کا سب سے طاقتور لیڈر مانتا ہو، جسے خود کے اقتدار میں لوٹنے کا پورا بھروسہ ہو، آخر وہ کیوں اس قسم کے جھوٹے، قابل اعتراض اور وقار کو مجروں کرنے والے الفاظ کا استعمال کرے گا؟ انھیں تو اچھی طرح احساس ہوگا کہ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن سے ان کی شکایت کی جائے گی۔ لیکن شاید انھیں بھروسہ ہے کہ الیکشن کمیشن ان کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنے کی ہمت نہیں کر پائے گا۔ الیکشن کمیشن کے پاس طاقت ہے کہ وہ اس معاملے کا نوٹس لے کر ان کی انتخابی تشہیر پر پابندی لگا دے، پورے الیکشن کے لیے نہیں تو دو چار دن کے لیے تو روک لگائی ہی جا سکتی تھی۔ الیکشن کمیشن کئی معاملوں میں ایسے قدم اٹھاتا رہا ہے، لیکن 48 گھنٹے گزرنے کے بعد بھی الیکشن کمیشن ابھی تک سو رہا ہے۔
Published: undefined
کانگریس اور سی پی ایم کےع لاوہ ملک کے ہزاروں دانشور اور بیدار شہری نے الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر اپنا اعتراض درج کرایا ہے۔ لیکن کمیشن نے اس پورے معاملے پر ابھی تک خاموشی اوڑھ رکھی ہے۔ لیکن وزیر اعظم کو شاید بھروسہ ہے کہ الیکشن کمیشن اس معاملے میں خاموش ہی رہے گا، کیونکہ اسے تو انھوں نے ہی منتخب کیا ہے۔
Published: undefined
سمجھنا تو یہ بھی ہوگا کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا وزیر اعظم ایسی بدنامی کا جوکھم کیوں اٹھائے گا اور کھلے جھوٹ کا سہارا کیوں لے گا؟ انھوں نے تو سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے دسمبر 2006 میں دیے گئے بیان تک کو توڑ مروڑ کر پیش کر دیا۔ اس پر نہ ہی وزیر اعظم دفتر نے، اور نہ ہی بی جے پی کو اس شرمناک جھوٹ کو درست ٹھہرانے میں کوئی جھجک محسوس ہوئی۔ یہاں تک کہ بی جے پی آئی ٹی سیل کے مکھیا امت مالویہ نے تو یہاں تک پوسٹ کر دیا کہ ’’یہ صاف ہو گیا ہے کہ کانگریس ملک کے غریبوں اور حاشیہ کے لوگوں کی ملکیت چھین لے گی اور انھیں اقلیتوں کو بانٹ دے گی۔‘‘
Published: undefined
حالانکہ سابق مرکزی وزیر پی چدمبرم نے اس کا جواب دیتے ہوئے پوسٹ لکھ کر بی جے پی سے یہ سوالات پوچھے:
1. آخر کب اور کہاں کانگریس نے کہا ہے کہ وہ ملک کے لوگوں کی ملکیت، زیورات اور دیگر سامان کو چھین کر مسلمانوں کو تقسیم کرے گی؟
2. کانگریس نے کہاں کہا ہے کہ وہ ملک میں لوگوں کی ملکیتوں کا سروے کرائے گی اور خواتین کے سونے کے زیورات (منگل سوتر) اور قبائلی کنبوں کی چاندی کی جانکاری حاصل کرے گی؟
3. کب اور کہاں کانگریس نے کہا ہے کہ سرکاری ملازمین کی زمین اور نقدی چھین کر لوگوں کو بانٹ دی جائے گی؟
Published: undefined
اس سب کے پیچھے غالباً بی جے پی کا خوف اور لوک سبھا انتخابات میں شکست کا اندیشہ ہی وجہ ہو سکتی ہے۔ کئی اور اسباب بھی شمار کرائے جا رہے ہیں۔ ان میں سے سب سے مناسب جو نظر آتا ہے، وہ یہ ہے کہ پہلے مرحلہ کی ووٹنگ سے ملے فیڈ بیک کے بعد وزیر اعظم نے کھل کر ماحول کا پولرائزیشن کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور لوگوں سے کثیر تعداد میں ووٹنگ کی امید کی ہے۔
Published: undefined
دوسری وجہ جو بتائی جا رہی ہے، وہ یہ ہے کہ وزیر اعظم دراصل اس بات سے پریشان ہیں کہ ان کے پسندیدہ سرمایہ کاروں کی ملکیت کی بات اٹھتی رہی ہے۔ حالانکہ کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں کہیں بھی ملکیت کے بٹوارے کی بات نہیں کی ہے، البتہ یہ ضرور کہا ہے کہ ملک میں عدم مساوات اور ناانصافی کو ختم کرنے کے لیے اقدام اٹھائے جائیں گے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined