بطور وزیر اعظم نریندر مودی کی حکمرانی کے 4 سال آزادی کے بعد کے تباہ کن سال ثابت ہوئے ہیں۔ اس کا مقابلہ گزشتہ 70 سالوں کے کسی 4 سال کے دورانیہ سے نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس کا سب سے پریشان کن پہلو یہ ہے کہ اقتصادی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی میدان میں یہ تباہی مستحکم اور مثبت بین الاقوامی صورت حال کے دوران آئی ہے۔
ہم اقتصادی صورت حال پر نگاہ ڈالتے ہیں تومودی حکومت کے پہلے دو سال میں خام تیل کی بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمت سب سے کم سطح پر تھی اور اب اس کی قیمت 2014 کی قیمتوں کے برابر ہیں ، اس کے باوجود پٹرول - ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کر رہے ہیں ، نام نہاد مارکیٹ کی قیمتوں کے مطابق نہیں ہیں! لیکن یہ صرف ایک مثال ہے۔
یہ اضافہ چینی سے تور دال اور موبائل فون کال چارج سے لے کر ریل کرایہ تک زیادہ تر مصنوعات کی قیمت میں ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بیروزگاری کی صورت حال تیزی سے خوفناک ہوتی جا رہی ہے۔ نوٹ بندی کے بعد معیشت پوری طرح سے لڑکھڑا گئی اور موسمی نوکریوں کے ساتھ ساتھ دستکاری اور نصف ماہر کو کاروبار بھی ملنا مشکل ہو گیا ہے۔
ملک میں سرمایہ کا پیدا ہونا تقریباً مستحکم ہو گیا ہے اور میک ان انڈیا کا نعرہ لگانے والوں کی امید کے مطابق بین الاقوامی سرمایہ بھی نہیں آیا، صنعتی پیداوار گر رہی ہے ، کارخانوں میں تالابندی اور ہڑتالوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، آجر ان مصنوعات کو برآمد اور درآمد نہیں کر پا رہے۔ ایسا اس لئے ہوا کیوں کہ بین الاقوامی سطح پر کاروبار کی شرائط ہندوستان کے خلاف ہو گئی ہیں۔
زرعی علاقہ کے تعلق سے جتنا کم کہا گیا وہ بہتر ہے۔ دیہی بحران اتنا شدید ہے کہ یہ بلراج ساہنی کی فلم ’دو بیگھہ زمین‘ جیسے سانحہ کی طرح نظر آتا ہے۔ کسانوں کی خودکشی پہلے سے کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ جاری ہے۔ بونس دینے کے ساتھ زرعی مصنوعات کی قیمتوں کے تعلق سے کئے گئے وعدے نے زندگی قابل رحم بنا دی ہے۔
Published: undefined
اس سب کے باوجود شیئر بازار آسمان پر ہے،سونے اور چاندی کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، ہوائی سفر کے کرایہ میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن مسافروں کی تعداد بڑھ رہی ہے، زمین کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں اور فلیٹ متوسط طبقہ کی پہنچ سے باہر ہو گئے ہیں۔ ہزاروں اپارٹمنٹ بغیر فروختگی کے پڑے ہوئے ہیں لیکن فلیٹوں کی قیمت آسمان پر پہنچ گئی ہے یا پھر اس میں معمولی گراوٹ درج کی گئی ہے۔
کاروں یا دو پہیہ گاڑیوں کی فروخت میں گراوٹ آئی ہے لیکن مانگ مستحکم ہے۔ پانچ ستارہ ہوٹلوں میں بکنگ کی در کچھ حد تک کم ہوئی ہے لیکن کاروبار مضبوط ہے، محفوظ سوسائٹیوں کے بڑھنے کے ساتھ جھگیاں بھی بڑھ رہی ہیں، چاروں طرف کا جو غیر مساوی ماحول ہے وہ دھماکہ خیز روپ اختیار کر رہا ہے۔
سیاسی محاذ کی بات کریں تو سیاسی ڈائیلاگ سے نظریہ ندارد ہے، میڈیا کو ان مدوں میں کوئی دلچسپی نہیں جو سماج کے سامنے منھ بائے کھڑے ہیں۔ وہ فرقہ پرستی، جارحانہ اور غیر سطحی سیاسی مباحثوں پر اپنا 24 گھنٹوں کا کاروبار چلاتے ہیں، ٹی وی مباحثوں کے مہمانوں کی طرف سے متعصب، الزامات، افواہ، چیخنا چلانا، یہی سب آج کچھ آج کے ٹی وی کی تشریح کرتے ہیں۔
شاید ہی کوئی پارٹی لوگوں یا ان کے خدشات کی سمجھ رکھتی ہے، یہاں تک کہ ایمانداری سے تحریک چلانے والے انقلابیوں کی تعداد بھی بہت کم ہو رہی ہے، سب سے بڑی لیکن غیر رجسٹرڈ غیر سرکاری تنظیم نے حکومت کے تعاون سے سماج میں اپنے پیر جما لئے ہیں۔ بی جے پی حکومتوں کی غیر توجہی کے سبب کئی غیر سرکاری تنظیمیں فنڈ کی کمی سے جدو جہد کر رہی ہیں۔
سماجی صورت حال ابتر ہے۔ لو جہاد، مسلمانوں سے نام نہاد خطرہ ، گائے کے قتل کا الزام اور گائے کے گوشت کی دستیابی، پدماوت جیسی فلموں پر مظاہرہ، تین طلاق اور کثیر ازدواج جیسے مدے، سماج اور سیاست میں چرچ کی مبینہ مداخلت، ہندوتوا کے ایجنڈے کو فروغ دینے کے لئے نصاب کی کتابوں کو تبدیل کرنا، سنیما گھروں میں قومی ترانہ بجانا جیسے موضوعات اخبارات کی سرخیاں بنے ہوئے ہیں۔ فرقہ وارانہ خطرات کی بنیاد پر نفسیاتی خوف کی تشہیر کے ذریعے سماجی او ر مذہبی طبقات کے مرکزی دھارے سے الگ ہٹ کر بستیوں میں بسنے کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔
ثقافتی محاذ پر خالی پن ہے۔ ستیہ جیت رے یا بمل رائے کی برابری کا کوئی نہیں ہے۔ گریش کرناڈیا وجے تندولکر کا مقام لینے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ دو آنکھیں بارہ ہاتھ، مدر انڈیا جیسی فلمیں بنا کر سماج کو سمت دینے کا کام کوئی نہیں کر رہا۔ سب سے زیادہ ترقی پسند ثقافتی تحریک میں کمی آ گئی ہے یا وہ غائب ہو گئی ہے۔ یقینی طور پر یہ گراوٹ 4 سال میں نہیں آئی لیکن گراوٹ تیز ضرور ہو گئی ہے۔ مودی حکومت کے دوران بہتری کی کوئی امید بھی نظر آنی بند ہو گئی ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ سب سے پہلے ہم حکومت میں تبدیلی لائیں اور وایتی قدروں کو پھر سے قائم کیا جائے، یہ آسان چیلنج نہیں ہے کیوں کہ گزشتہ 4 سالوں میں کافی نقصان ہو چکا ہے، ہمیں یہ ضرور پوچھنا چاہئے کہ اس صورتحال میں کس نے پہنچایا ہے، قصوروار صرف شاطر اور پر تشدد آر ایس ایس نہیں ہے، شہری سماج بھی ناکام ہوا ہے، گاندھی جی، پنڈت جی یا اندرا جی کی طرح انہوں نے لوگوں کے بیچ پہنچ نہیں بنائی، دوسری پارٹیوں کے سیکولر رہنما نہرو-گاندھی خاندان کی ہار دیکھنے میں دلچسپی لیتے تھے اور کانگریس کی گراوٹ پر مزہ لیتے تھے، انہوں نے اپنے طریقہ سے فاسسٹ قوتوں کو اقتدار میں لانے میں تعاون دیا۔
دانشوروں نے یورپی فاسزم اور اس کے ہندوستانی ہم منصب کے بیچ بحث کی۔ انہوں نے معاشیات کے تعلق سے گول مول باتیں لکھیں۔ انہوں نے کانگریس مخالفت کی فرضی سیاست کو اجازت دی اور ایک متوازی نظریہ کے طور پر قبول کیا۔ یہ کوئی نہیں کہہ رہا کہ کانگریس سب سے پاک اور مثالی پارٹی تھی، لیکن یہ قسمت کے ساتھ اس جد و جہد کے لئے سخت محنت کر رہی تھی۔
ترقی پسند قوتوں، کام کاجی لوگوں، خواتین، غیر رسائی والے طبقات اور ذاتوں کو مضبوط کرنے کے بجائے کانگریس رہنما اقتدار کے لالچ میں جھک گئے اور کئی محاذوں پر سنگھ کو گلے لگا لیا۔ ان کے لئے فاسسٹ قوتوں سے لڑنے کی بجائے کانگریس مخالفت سیاست زیادہ ترقی پسند تھی۔
نریندر مودی اکیلے نہیں ہیں، وہ ہندوستانی سماج میں گہرائی تک جڑ جمائے فرقہ واریت، قدامت پرستی،پدر پرستی، سرمایہ داری، سامنت واد اور نسل پرستی کے نمائندے ہیں، مودی کی طاقتیں، جو بدعنوانی، اخترعاتی اور تباہی کے مظہر ہیں، وہ انتقاماً تاریخ کی سوئی کو پیچھے لے جانے کے لئے سامنے آئی ہیں، وہ تحریک آزادی کی قدروں کو مٹانا، تہذیب کے اصولوں کو تباہ کرنا اور عالمی اتحاد کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔
مودی کی حکمرانی کے 4 سالوں نے ہمارے کام کو مزید چیلنجز سے بھرا اور ضروری بنا دیا ہے۔ لیکن ہم اسے ضرورت شکست دیں گے، کیونکہ برائی ماضی میں دخل اندازی کر پانے میں کبھی کامیاب نہیں ہو پائی تھی، اسے مستقبل میں داخل ہونےکی اجازت نہیں دی جائے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز