جیسا کہ ہم جانتے ہیں، ہندوستان میں تیزی کے ساتھ نفرت اور کٹرپسندی پھیلائی جا رہی ہے اور اب یہ بات ہو گئی ہے۔ نفرت پھیلانے کی اس کارروائی کو طاقتور اعلیٰ قیادت کے ذریعہ حمایت حاصل ہے جو لوگوں کو کھل کر اور برسرعام اپنی کٹرپسندی اور نفرت کو سامنے رکھنے کا ماحول مہیا کرا رہی ہے۔ 70 سال قبل سامنتوادی اتحاد کی بنیاد پر اکثریت پسندی، انسانی اور مکمل جمہوری قوم بنانے کے لیے جب ہم ساتھ آئے تو ہم نے مظلوم، بےعزت کی گئی ذاتوں اور خواتین کے خلاف بے رحمانہ اور علیحدگی پسندی کی تاریخ کو پیچھے چھوڑنے کا عزم کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ ہماری تہذیب کی تاریخ کا زیادہ تر حصہ کثیرجہتی اور برداشت کے جذبہ کے ساتھ پرسکون تھا۔ ہم نے جو آئین خود کو دیا اس میں یہ وعدہ موجود تھا کہ یہ ملک ان سبھی لوگوں کا ہے جو یہاں پیدا ہوئے اور جنھوں نے اسے رہنے کے لیے منتخب کیا خواہ وہ کسی بھی عقیدے، ذات، جنس یا طبقے سے تعلق رکھتے ہوں۔ یہ برابری والے، جمہوری، انسانی سیاسی عزائم بغیر تفریق سبھی لوگوں کی یکساں طور سے حفاظت کرے گا اور جنھوں نے بھی یہاں جنم لیا یا اس زمین کو چنا، انھیں زندگی میں انصاف پر مبنی موقع ملے اسے یقینی بنائے گا۔
لیکن آج مودی کے ہندوستان میں مسلمانوں اور عیسائیوں پر یہ خطرہ ہے کہ وہ دوئم درجے کا شہری نہ بن کر رہ جائے۔ ہر جگہ چاہے وہ سڑک ہو، دفتر ہو، لوگوں کے کمرے ہوں، پڑوسیوں کا گھر ہو، ٹیلی ویژن اسٹوڈیو ہو یا انٹرنیٹ ہو، وہاں نہ صرف مسلمانوں بلکہ دلتوں، قبائلیوں، عیسائیوں، خواتین، افریقیوں، شمال مشرق کے لوگوں اور لبرل لوگوں کے خلاف نفرت پھیلانے والی زبان اور بھیڑ کے ذریعہ تشدد کو فروغ دینے کا ماحول قائم کیا جا رہا ہے۔
نفرت پھیلانے والی تقریروں، دھمکیوں، اُکساوے اور حملوں کے ذریعہ ایک خوفناک ماحول قائم کیا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ سبھی ہندوستانیوں کو خوف دکھا کر ایک طرح کی طرز زندگی اختیار کرنے کے لیے مجبور کیا جائے جو یکساں عقیدہ اور ثقافتی روش پر مبنی ہو۔ اس میں آپ کے کھانے، پہننے، کام کرنے، محبت کرنے اور سوچنے پر تشدد آمیز پابندی لگی ہے۔
اس طرح کے مشکل وقت سے نبرد آزما ہونے کے معاملے میں ہندوستان کے لوگ تنہا نہیں ہیں۔ یہ وقت پورے ملک میں بدامنی کا ہے۔ دنیا کے کئی ملک نفرت اور کٹرپسندی کے جال میں پھنس گئے ہیں۔ ایک کے بعد ایک کئی ممالک میں ایسے لیڈر آ رہے ہیں اور لوگ انھیں منتخب کر رہے ہیں جو بالادستی رکھتے ہیں، تشدد آمیز حب الوطنی، مہاجروں، اقلیتوں اور اسلام کے مخالفین اور غریبوں کے تئیں بے پرواہ ہیں۔ مکمل اختیار رکھنے والے تانا شاہوں نے بالادستی رکھنے والے لیڈروں کو آگے بڑھایا ہے جنھیں ووٹروں کے ضروری حصے کی حمایت بھی حاصل ہے، جس سے یہ لیڈر اقتدار حاصل کر رہے ہیں یا جیسا کہ فرانس میں ہوا، وہ اقتدار حاصل کرنے کے قریب پہنچ رہے ہیں۔ کئی ممالک میں جہاں مسلم آبادی اکثریت میں ہے ان ممالک کے شہری بھی مکمل اختیار والے اقتدار کے ماتحت رہ رہے ہیں جو اقلیتوں کی سیاسی اور مذہبی نا اتفاقی کے تئیں عدم روادار ہیں۔ دنیا کی دو بڑی جمہوریت ہندوستان اور امریکہ، اور یوروپ کا ایک بڑا حصہ بھی مسلم نام والے لوگوں کے لیے ایک دھمکی دینے والی اور نامناسب جگہ بنتی جا رہی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں مسلمان کی شکل میں جنم لینا کلنک، تفریق، علیحدگی اور تشدد کی لٹکتی تلوار کے ناقابل برداشت اور ظالمانہ بوجھ تلے دبے ہونا ہے۔
آج کے ہندوستان میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح مسلمانوں، عیسائیوں اور کئی دلت لوگوں کو منظم طریقے سے برابری کی شہریت سے محروم کیا جا رہا ہے۔ ہندوستانی آئینی عزائم کا ایسا زوال اور بربادی ہندوستانی سیاسی اور ریاستی اداروں کی جانب سے بغیر ضروری مخالفت کے ہوا جس میں عدلیہ، میڈیا اور عام لوگ شامل ہیں۔ یہ مجھ میں گہری تکلیف اور بے اطمینانی پیدا کرتا ہے۔ ان سب میں مجھے اتحاد کے جذبہ کی گہری ناکامی نظر آتی ہے۔ میں یہ مانتا ہوں کہ ہمارے اندر چلنے والا یہ جدوجہد ایک نتیجہ خیز دور میں پہنچ گیا ہے، اور یہ بہت طویل مدت سے ہو رہا تھا کیونکہ نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھائیں، اس لیے ہندوستانی عوام خود کو اس حالت میں پا رہی ہے۔ ان سیاسی پارٹیوں کے لیے سیکولر اور سامنتوادی جمہوریت ایک اخلاقی اصول کی جگہ موقع پرستی اور انتخابی جوڑ توڑ کا اوزار رہا ہے۔
حال کے سالوں میں پولرائزیشن کرنے والی قیادت کے عروج کو لے کر میں فکر مند ہوں۔ کئی ممالک میں اسی طرح کی قیادت نے اقتدار حاصل کیا ہے جو تقسیم کو ختم نہیں کرتے بلکہ نفرت اور کٹر پسندی کو صحیح ٹھہراتے ہیں۔ اس کے علاوہ میں سب سے زیادہ فکرمند اس بات سے ہوں کہ ہندوستان میں عوامی مخالفت کی آوازیں کافی دبی اور کم ہیں۔ حال کے سالوں میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف منظم طور پر نفرت پھیلانے کی کوششوں کے درمیان مجھے اس بات کی بھی فکر ہے کہ اکثریتی آبادی نے اپنے پڑوسیوں پر حملہ کرنے اور انھیں داغدار کرنے کی مہم میں تو حصہ نہیں لیا لیکن ہم نے ایسی کوششوں کی مخالفت بھی بہت کم کی۔
ہم نے نام نہاد گئو رکشکوں اور ہریانہ و اتر پردیش میں وردی میں لیس پولس والوں کو اس افواہ کے بہانے مسلمانوں اور دلتوں پر حملہ کرنے دیا کہ وہ گائے کا گوشت کھاتے ہیں۔ نفرتی تشدد کے سبب مظفر نگر سے 50 ہزار مسلمان باہر نکال دیے گئے اور واحد مخالفت ہم نے یہ سنا کہ ہندوؤں نے دوسری جگہ پر ان کے بسنے کو اس لیے غلط ٹھہرایا کہ وہ جہاں بھی جاتے ہیں وہاں مسائل پیدا کرتے ہیں اور اس سے جرم کے معاملات بدتر ہو گئے ہیں۔ ملک کے کئی حصوں سے یہ خبریں آئیں کہ کئی سارے مسلمان عیدالاضحیٰ پر جانور کی قربانی دینے کی اپنی سالانہ تقریب کو کرنے سے خوفزدہ تھے کیونکہ انھیں ایسا لگا کہ گئوکشی کے نام پر ان پر حملہ کیا جائے گا۔ نوعمر مسلمانوں کو دہشت اور تشدد پھیلانے کے غلط الزامات کی بنیاد پر اب بھی سالوں جیل میں رکھا جا رہا ہے اور کوئی بھی کٹرپسندی کے ذریعہ چرا لیے گئے ان کے سالوں کو واپس نہیں لوٹا سکتا، لیکن ہم یہ بھروسہ کرتے ہیں کہ اگر مسلم نوجوان بے قصور ہیں تب بھی حکومت کا دہشت گردانہ جرائم کے معاملے میں ان پر شبہ کرنا واجب ہے۔ ہائی سیکورٹی والے بھوپال جیل میں بند 8 لوگوں کو 2016 کی سردیوں میں پاس سے گولی مار دی گئی اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ انھوں نے چمچ، ٹوتھ برش اور چاقو کے ذریعہ چابھی بنا لی تھی، پھر بھی کوئی احتجاج نہیں ہوا۔ 2016 کی ہی سردی میں ملک کی سیکورٹی ایجنسیوں نے کشمیر کی عوامی مخالفت میں طلبا کے ذریعہ پتھر پھینکنے کا جواب پیلیٹ بندوقوں سے دیا جس سے کئی نوجوان نابینہ اور معذور ہو گئے۔ نوجوان شہری احتجاج کے خلاف اختیار کیے گئے اس طاقتور فوجی جواب کو حب الوطنی پر مبنی قرار دیا گیا۔ ہندوستان کی قومی راجدھانی حلقہ میں موجود گڑگاؤں میں ان دنوں بڑے پیمانے پر کھلے میں جمعہ کی نماز پڑھنے والے مسلمانوں کے خلاف ایک مہم چلائی جا رہی ہے جب کہ کئی دہائیوں سے بغیر کسی روک ٹوک کے یہ ہوتا رہا ہے کیونکہ شہر کے بے تحاشہ پھیلنے کی وجہ سے وہاں کئی دوسری ریاستوں سے مسلم مزدور کام کرنے کے لیے آئے۔
Published: 25 May 2018, 3:58 AM IST
فلسفی اور ماہر اقتصادیات امرتیہ سین نے ان سب کے تعلق سے اپنی فکر مندی ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقلیتی طبقہ ہندوستان میں جو خوف برداشت کر رہے ہیں اسے قطعی زراعتِ برادرانہ نہیں کہا جا سکتا۔ پھر بھی وزیر اعظم نریندر مودی کے طاقتور اور پرجوش قیادت کے دوران ہم دیکھتے ہیں کہ آئینی اصولوں کو لے کر کئی ٹکراؤ تو ہوئے، لیکن برادرانہ معاملوں پر کوئی ٹکراؤ نہیں ہوا۔ جمہوریت کو خوشحال کرنے اور آگے بڑھانے میں برادرانہ جذبہ کی مرکزیت بابا صاحب امبیڈکر کا ایک بہت قیمتی اور گہرا نظریہ تھا۔ ہمارے درمیان عقیدت، ذات، طبقہ، جنس، زبان، لباس، کھانا پینا، محبت، شادی، طلاق، جشن، غم سے متعلق کئی طرح کی نابرابری ہوتے ہوئے بھی ہم آخر کار ایک ہیں، کیونکہ ہم ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
Published: 25 May 2018, 3:58 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 25 May 2018, 3:58 AM IST
تصویر: پریس ریلیز