جسم پر زخم ہیں، آنکھوں میں لہو اترا ہے
آج تو روح بھی لرزاں ہے میری
ذہن پتھر کی طرح
ذہن پتھر کی طرح
سخت و بے جان سا، مفلوج سا
بے حس، بے کار
اس میں چیخوں کے سوا، کچھ بھی نہیں،
کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں
.مجھ سے مت پوچھو میرا نام تو بہتر ہوگا
.مجھ سے مت پوچھو میرا نام تو بہتر ہوگا
میں وہی ہوں کہ جسے
ساری بدمست بہاروں کو پرکھنا تھا ابھی
میں وہی ہوں کہ جسے
پھول سا کھِلنا، مہکنا تھا ابھی
جھومتے گاتے ہوئے جھرنوں کی دھن کو سن کر
میرے پیروں کو تھرکنا تھا ابھی
درسگاہوں کی کھلی بانہوں میں جانا تھا مجھے
اور ایک شعلے کی مانند، دھدھکنا تھا مجھے
.
میں وہی ہوں جسے تم نے مندر کی حدوں کے اندر
اپنے جوتوں کے تلے روند دیا
میں وہی ہوں کہ جسے
سارے بھگوان کھڑے
چپ کی تصویر بنے
تکتے رہے، تکتے رہے، تکتے رہے
اور میرے جسم کا ہر قطرۂ خوں
تھپکیاں دے کے سلانے کا جتن کرتا رہا
مجھ کو سمجھاتا رہا اور کچھ دیر ستم سہ لے میری ننہی پری
موت کے پار ہر ایک ظلم سمٹ جائے گا
اور کوئی ہاتھ تجھے چھو بھی نہیں پائے گا
.
میں وہی ہوں جو درندوں کے گھنے جنگل میں
بین کرتی رہی انصاف کے دروازے پر
مجھ کو معلوم نہیں تھا کہ تمھیں
باپ کا سایہ بھی سر پر میرے منظورنہیں
.
جسم پر زخم ہیں، گہرے ہیں، بہت گہرے ہیں
مجھ سے مت پوچھو میرا نام تو بہتر ہوگا
.
مادرِ ہند ہوں میں
وہ جو خاموش تھے شامل تھے زنا میں میری
وہ جو خاموش ہیں شامل ہیں زنا میں میری
Published: 22 Apr 2018, 2:47 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 22 Apr 2018, 2:47 PM IST
تصویر: پریس ریلیز