پروفیسر وسیمؔ بریلوی کے احساس کی تہہ تک رسائی کے بغیر ان کی ذات اور شعری وجود سے آشنائی ناممکن ہے، لیکن یہ کام کچھ آسان نہیں ہے۔ ایسی سریع الحس طبیعت ...................پائی ہے کہ ان کے درِ احساس پر دستک دینا میرؔ والے اس وزنی پتھر کو اٹھانے جیسا ہے، جس کا متحمل ہر کس و ناکس نہیں ہو سکتا۔ قفل ابجد کھولنے کے لئے ریاضت تو درکار ہوگی ہی۔ اور اگر ان کی ذات منکشف ہو گئی تو پھر اس کے تمام رنگ بغیر کسی ’پرزم‘ سے گزارے ایک ایک کر کے کھلتے چلے جائیں گے۔ کچھ لوگوں کو ان کی صورت میں نہیں ان کے قلب میں دریافت کیا جاتا ہے، انھیں بصارت سے نہیں بصیرت سے شناخت کیا جاتا ہے:
ہمارے دل میں بھی جھانکو اگر ملے فرصت
ہم اپنے چہرے سے اتنے نظر نہیں آتے
Published: undefined
وسیم ؔ بریلوی اپنے وجود کی تہذیب اور اس کی خود مختاری کو اپنی شرطوں پر منوانے کی ایک مہذب ضد کا نام ہے۔ اپنے مکمل تشخص کی تشکیل، اس کی بقا اور زمانے سے اسے تسلیم کرانے کے لئے انھوں نے اپنی ذہانت و صلاحیت اور متانت کے علاوہ جس ضبط،تحمل، استقلال اور احتیاط سے کام لیا ہے وہ مثالی ہے۔ انھوں نے نہ کبھی اپنی خودداری کے دام لگنے دیے اور نہ کبھی عزت نفس پر حرف آنے دیا۔ وسیمؔ بریلوی کی فکر کی نمی کو وہی محسوس کر سکتا ہے، جو ’تہذیب ِ اشک‘ سے آشنا ہوگا، ان کی فنّی بصیرت و بصارت سے وہی اکتساب نور کر سکتا ہے جس نے ’فلسفہئ چراغ‘ پڑھا ہوگا۔
Published: undefined
جگرؔ مرادآبادی، فراقؔ گورکھپوری، وامق ؔ جون پوری، نشورؔ واحدی، سلام ؔ مچھلی شہری، فناؔ نظامی، محشرؔ عنایتی، روشؔ صدیقی، دلاور فگارؔ، آل احمد سرورؔ، مجروحؔ سلطان پوری، علی سردارؔ جعفری، کیفیؔ اعظمی، ساغرؔ نظامی، گوپی ناتھ امنؔ، آنندنرائن ملّاؔ، جگن ناتھ آزادؔ، ساحرؔ ہشیارپوری، نریش کمار شادؔ، بسمل ؔ سعیدی، شمیمؔ کرہانی، عزیزؔ وارثی، کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ، شمسیؔ مینائی، عالم ؔ فتح پوری، گلزارؔ دہلوی، کرشن بہاری نورؔ، نداؔ فاضلی، کلیم عاجزؔ.... وغیرہ سے ہوتے ہوئے مشاعروں کی صدیوں پرانی تہذیب اور اس کی روایات کا جو حسن اکیسویں صدی سے ہم کنار ہوا ہے، پروفیسر وسیمؔ بریلوی اس کا آخری نشان ہیں۔ وہ ان شعرا میں شامل ہیں، جنھوں نے مشاعرے کو کارِ خیر سمجھا، اس سخن زار کی ’اشک پاشی‘ و ’لہو پاشی‘ کی اور اس ادارے کو یہاں تک لانے میں اپنے وجود کو کھپادیا۔ وسیم ؔ بریلوی آج بھی مشاعرے میں فن کی صداقت اور اپنے مکمل وجود کے ساتھ شامل ہوتے ہیں۔
Published: undefined
مشاعرہ تہذیبی و تادیبی ادارہ ہے، اس کے اپنے آداب اور اصول ہیں۔ بدنصیبی سے موجودہ نسل کو مشاعرے کی صالح روایات کے لحاظ کی توفیق ہی میسر نہیں ہے۔ مجھے کہنے دیجئے کہ اس وقت وسیمؔ بریلوی مشاعرے کی تہذیبی اقدار کے تقریباً آخری محافظ ہیں۔مشاعرے میں آخر تک بیٹھنا، شعراء کی خاطر خواہ پذیرائی، نو آموزوں کی حوصلہ افزائی، بامعنی جملوں کی ادائیگی، لایعنی گفتگو سے پرہیز سطحی شاعری اور لچر انداز پیشکش پر ناگواری کا شائستہ اظہار، اور ایسی ہی دوسری بہت سی اعلیٰ اقدار کی پوٹلی کو وہ آج بھی بغل میں دابے ہوئے ہیں۔ مشاعرے کا اگر کوئی اخلاقی ضابطہ ہے تو اس کے متن میں وسیم ؔ بریلوی کا چہرہ بھی جھلکتا ہے۔ ادب اور حد ادب جیسے الفاظ اب دیکھنے یا سننے کو تو کیا پڑھنے تک کو نہیں ملتے۔ تہذیبی بحران کے اس عہد میں وسیمؔ بریلوی جیسے لوگوں کا دم غنیمت کہ ان لفظوں کے معنی ابھی سمجھے جا سکتے ہیں۔ وہ اپنے قول و فعل دونوں سے زبان، شعر و ادب، سماج، وطن اور نوع انسانی کی خاطر سانس سانس لڑے ہیں۔
Published: undefined
وسیمؔ بریلوی نے شہرت اور مقبولیت سے آگے جست لگا کر محبوبیت کی وہ معراج حاصل کی کہ اس پر صرف رشک کیا جا سکتا ہے۔ مقبولیت کا یہ عالم کہ بریلی میں محض 32 برس کی عمر میں ان کا جشن منایا گیا، وہ بھی اس شان کا کہ فراقؔ گورکھ پوری جیسے نابغہ عصر شاعر اربابِ اہتمام سے اس خواہش کا اظہار کئے بنا نہ رہ سکے کہ ’جشن وسیم‘ جیسا ایک مشاعرہ ان کے لئے بھی برپا کیا جائے۔
صدی کے بڑے شاعر فراق ؔ گورکھ پوری کے غرّے سے کون ناواقف ہوگا۔ فراقؔ نے نہ کبھی کسی شعر پر داد دی، نہ کبھی واہ کی نہ آہ، کبھی سر تک نہ ہلایا لیکن جب انھوں نے ’یادوں کے جھروکے سے‘ لکھی تو عہدِ حاضر کے شعرا میں، حیرت انگیز طور پر سب سے زیادہ تذکرہ انھوں نے وسیم ؔ بریلوی کا کیا، جب کہ اپنے کئی معاصرین کی انھوں نے بڑی ہتک کی۔
Published: undefined
وسیمؔ بریلوی آج توقیر، تعظیم، نام آوری اور قبولِ عام کی جس منزل میں ہیں وہاں تک رسائی بے سبب نہیں ہے۔ مراقبے سے محاسبے تک، مشاہدے سے مطالعے تک، مصاحبے سے مکالمے تک، مجاہدے سے مجادلے تک، معاملے سے مقابلے تک علم و آ گہی، عرفان و دانش اور سعی و عمل کا ایک دراز سلسلہ ہے، جسے عبور کر کے وہ اس مرتبے تک پہنچے ہیں۔ اس منصب تک باریابی کے لئے انھیں مختلف آزمائشوں سے گذرنا پڑا، ان کے امتحان لیے گئے، کسوٹیوں پر رکھا گیا، مصرعے لگوائے گئے، قلیل عرصے میں طرحی غزلیں کہلوائی گئیں۔ ادب کی حرمت کی خاطر انھیں مشاعرے سے بیرنگ لوٹنا پڑا، حقِ خود ارادیت کے تحفظ کے لئے تگ و دو کرنی پڑی، احترامِ ذات کے لئے راہیں بدلنی پڑیں۔ انھیں شہرت و مقبولیت کا تاوان بھی دینا پڑا۔ لیکن وہ ہر محاذ سے سرخ رو ہو کر نکلے۔
Published: undefined
مشاعروں کی عام روش میں اپنی مختلف مزاجی کے سبب وسیم ؔ بریلوی کو یہ نہیں لگتا تھا کہ وہ کسی مرتبے تک پہنچ پائیں گے۔ ایک مدّت تو انھیں یہ سمجھنے میں لگ گئی کہ مجمع کیا ہوتا ہے، مجمع سازی کیا ہے۔ جب ’رخ سے پردہ ہٹا دیجئے‘ جیسی شاعری شامیانے اڑا رہی تھی تب وہ اس طرح کے نئے شعر پڑھنے کی غیر معمولی جرأت کر رہے تھے:
میں کچھ اس طرح جیا ہوں کہ یقین ہو گیا ہے
مرے بعد زندگی کا بڑا احترام ہوگا
پانی پہ تیرتی ہوئی یہ لاش دیکھئے
اور سوچیے کہ ڈوبنا کتنا محال ہے
ایسے ماحول میں یا تو طوفان تھمنے کا انتظار کرنے کی ضرورت تھی یا بہاؤ کے خلاف تیرنے کی۔ جس میں بازو شل ہونے کا خطرہ تھا، لیکن وسیم ؔ بریلوی دھارے کے خلاف اس وقت تک ہاتھ پاؤں مارتے رہے، جب تک اس سے پار نہیں پا لیا۔
مشکلیں تو ہر سفر کا حسن ہیں
کیسے کوئی راہ چلنا چھوڑ دے
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined