شاعری

روپ کماری: پہلی غیر مسلم مرثیہ گو شاعرہ

بر صغیر ہند و پاک میں جہاں مجلسوں میں انیس اور دبیر کے مرثیے بہ کثرت پڑھے جاتے ہیں وہیں اس غیر مسلم خاتون کے مرثیے بھی عزاداروں کو غم حسینؑ میں آنسو بہانے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

دیوی روپ کماری / سوشل میڈیا
دیوی روپ کماری / سوشل میڈیا 

بحر وحدت کی شناور ہے طبیعت میری

گو ہوئی مشرکوں کے گھر میں ولادت میری

کفر اور شرک سے ہے پاک جو طینت میری

ہوش آتے ہی بڑھی کفر سے نفرت میری

مئے توحید تھی گھٹی میں جو شامل ساقی

اس لئے طبع ہے اسلام پہ مائل ساقی

اس کلام کو پڑھ کر یہ اندازہ تو بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کسی غیر مسلم شاعر کا کلام ہے۔ یقینن آپ کو تجسس ہوگا کہ آخر یہ کلام کس کا ہے۔ تو ہم آپ کا تجسس یہ بتا کرختم کئے دیتے ہیں یہ کلام ہے۔ روپ کماری کا جو اردو ادب کی واحد غیر مسلم مرثیہ گو شاعرہ ہونے کا اعزاز رکھتی ہیں۔

Published: undefined

واقعہ کربلا نے انسانی زندگی کو جذباتی اور احساساتی طور سے بہت متاثر کیا۔ دنیا کی ہر زبان میں امام حسینؑ کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ بر صغیر ہند و پاک میں غیر مسلم بھی بڑھ چڑھ کر رسوم عزاداری میں حصہ لیتے ہیں۔ متعدد غیر مسلم شعرا نے واقعہ کربلا کو مرثیہ کی صورت میں نظم کرکے شہیدان کربلا کے تئیں اپنے دلی جذبات کا اظہار کا ہے۔

Published: undefined

رام راؤ کو اردو ادب کا پہلا غیر مسلم مرثیہ گو شاعر قرار دیا جاتا ہے۔ علی عادل شاہ کے عہد میں وہ گلبرگہ سے ہجرت کرکے بمبئی چلے گئے تھے۔ جن غیر مسلم شعرا نے مرثیہ گوئی میں شہرت پائی ان میں منشی چھنو لال دلگیر لکھنوی کا نام سر فہرست ہے۔ چھنو لال دلگیر کی ہی طرح روپ کماری کے مراثی بھی بہت مقبول ہیں۔ روپ کماری یا روپ کنواری پہلی اور واحد غیر مسلم خاتون مرثیہ گو شاعرہ کی حیثیت سے اردو ادب میں اپنا منفرد مقام رکھتی ہیں۔

Published: undefined

روپ کماری آگرہ کی رہنے والی تھیں۔ ان کا تعلق کشمیری پنڈت گھرانے سے تھا۔ روپ کماری نے اپنے کلام میں خود اپنے بارے میں جو معلومات فراہم کی ہیں ممتاز محقق اور اردو ادیب سید تقی عابدی نے اس کو یکجا کرکے اسے سوانح کی شکل دے کر ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ تقی عابدی نے روپ کماری کے پانچ مراثی۔ ایک مسدس۔ایک مخمس۔ دو سلام اور دس قطعات اپنی کتاب میں شامل کئے ہیں۔ روپ کماری کا دور تصنیف تقریباً سات برسوں پر محیط ہے۔ ان کا پہلا سلام اپریل 1931 اور آخری مرثیہ نومبر 1937 کا ہے۔

Published: undefined

روپ کماری کی پیدائش اور وفات کے بارے میں تفصیلات دستیاب نہیں ہیں لیکن اندازہ ہے کہ 1938 سے قبل ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ 1937 کے بعد ان کا کوئی کلام شائع نہیں ہوا۔ ولادت اور وفات کی جانکاری موجود نہیں ہونے کے سبب ہی روپ کماری کی شخصیت پر شکوک و شبہات ظاہر کئے گئے، یہاں تک کہ ان کو ایک فرضی کردار تک قرار دیا گیا۔ فضل رسول فضل اور علامہ نجم آفندی کو روپ کماری کا استاد بتایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہا گیا کہ روپ کماری کے نام سے جو مراثی منظر عام پر موجود ہیں وہ فضل رسول فضل کا کلام ہے۔ فضل رسول فضل میر انیس کے منجھلے بھائی میر مہر علی انس کے شاگرد تھے۔ لیکن فضل رسول فضل اور نجم آفندی کے ہاتھوں اصلاح کردہ روپ کماری کا کلام موجود ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ کوئی خیالی کردار نہیں ہیں۔

Published: undefined

روپ کماری کشمیری پنڈت گھرانے کی فرد تھیں، گھر اور سماج کا ماحول بھگتی کی شاعری سے لبریز تھا۔ تاریخ اسلام اور رسولؐ کی حدیثوں سے واقفیت رکھتی تھیں۔ اردو، فارسی اور انگریزی پر مہارت تھی۔ فارسی میں منشی کامل کا امتحان پاس کرچکی تھیں اور انگریزی میں سیکنڈ ایئر تک تعلیم حاصل کی تھی۔ روپ کماری کی شاعری میں ان کے علمی، تاریخی، سماجی اور عقیدتی رنگوں کی جھلک ملتی ہے۔ بھگتی کی چاشنی ہندی اور سنسکرت کے عام اور آسان الفاظ کو فارسی اور اردو کے لفظوں سے جوڑ کر شعر میں ایک خاص لطف اور اچھوتا پن پیدا کرنا روپ کماری کا کرشمہ ہے۔

Published: undefined

روپ کماری کے کلام پر دبستان انیس کی چھاپ کی وجہ یہ ہے کہ ان کے استاد فضل رسول خانوادہ انیس کی فرد میر انس کے شاگرد تھے۔ ان کے مرثیہ کا یہ بند اس کی مثال ہے

صنعت صانع قدرت کا بیاں مشکل ہے

راز قدرت کرے انسان عیاں مشکل ہے

کس طرح پہنچے وہاں وہم و گماں مشکل ہے

جب تلک ہو نہ پیمبر کی زباں مشکل ہے

مجھ سے اس وقت بیاں ہوسکے اس کی توحید

یا خدا یا کہ ہو ہم نام خدا کی تائید

Published: undefined

روپ کماری کا یہ سلام بہت مشہور ہوا اور اس دور کے متعدد مذہبی رسائل میں شائع ہوا۔

دعائیں مانگی ہیں ہم نے برسوں جھکا کے سر ہاتھ اٹھا اٹھا کر

ملا ہے تب مصطفیٰ سا بندہ خدا خدا کر خدا خدا کر

پیونگی میں گنگا جل نہ ساقی گناہ سمجھوں جو دے برہمن

ثواب لے لے میں تیرے صدقے شراب طاہر پلا پلا کر

برنگ گل داغ حب حیدر ہمارے سینے میں ہے نمایاں

یہ پھول رکھا ہے ہم نے دل میں بتوں سے نظریں بچا بچا کر

رحیم ہے تیرا نام ایشور معاف کردے گناہ میرے

خطائیں مجھ سے ہوئی ہیں ظاہر کئے ہیں عصیاں چھپا چھپا کر

یہ میرے اشکوں کے چند قطرے سوا ہیں رتبے میں گنگا جل سے

کہ حوض کوثر پہ جا ملیں گے سقر کی آتش بجھا بجھا کر

خبر نہ جب تک کہ راہ کی تھی تو روپ تو کس بلا کی بھٹکی

عبث ہے پر اب یہ بت پرستی خدا خدا کر خدا خدا کر

Published: undefined

اسلام اور محمد اور آل محمدؐ سے محبت کے سبب روپ کماری سے ان کے گھر والے اور اہل خاندان ناراض اور خفا رہتے تھے۔ روپ کماری نے اپنے کلام میں جا بجا اس کا اظہار کیا ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنے کلام میں اپنی جان کو خطرا لاحق ہونے تک کی بات کہی۔ ایک جگہ انہوں نے اپنے خاندان والوں کے بارے میں یوں لکھا

رنج پہنچے کسی صورت مجھے یہ سوچتے ہیں

پانی پی پی کے غرض شام و سحر کوستے ہیں

ایک مرثیہ میں اپنے اہل خاندان کے رویہ کے بارے میں اس طرح نظم کیا ہے۔

کوئی کہتا ہے دھرم خلق میں کھویا اس نے

کوئی کہتا ہے کہ نام اپنا ڈبویا اس نے

کوئی جل بھن کے حسد سے یہی کرتا ہے سخن

رام ایسا ہو کٹے اس کی زباں اس کا دہن

کم سنی میں تو یہ ہرگز بھی نہ تھا اس کا چلن

جب جواں ہونے کو آئی تو سیکھا ہے یہ فن

ہوش آیا ہے تو مد ہوشی کی یہ صورت ہے

دیوتا دیکھ کے کہتی ہے کہ یہ مورت ہے

Published: undefined

مرثیہ کے ایک اور بند میں روپ کماری نے اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کا ذکر اس طرح کیا ہے۔

دل ادھر آیا ہے جب سے تو یہ حالت ہے ادھر

چلتے ہیں دل پہ بیگانوں کی زباں کے خنجر

اک مری جان حزین اور یہ ستم آٹھ پہر

ایسے جینے سے تو واللہ ہے مرنا بہتر

ہو گئی عشق میں رسوا نہ رہا عز و وقار

آفتیں ٹوٹ پڑی ہیں دل مضطر پہ ہزار

Published: undefined

روپ کماری کی موت کب اور کن حالات میں ہوئی اس کی تفصیلات دستیاب نہیں ہیں، لیکن یہ ضرور کہا جاتا ہے کہ ان کی موت طبعی نہیں تھی۔ بر صغیر ہند و پاک میں جہاں مجلسوں میں انیس اور دبیر کے مرثیے بہ کثرت پڑھے جاتے ہیں وہیں اس غیر مسلم خاتون کے مرثیے بھی عزاداروں کو غم حسینؑ میں آنسو بہانے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined