منور رانا کا اپنا تخلیقی جغرافیہ اور اپنا شعری محاورہ ہے۔ ان کی شاعری اپنی دھرتی اور اپنا آکاش رکھتی ہے۔ ہندستانی زبان کے رنگ سے بھر پور ان کی غزل ’لوک غزل‘ کی مثال ہے، جو ہماری تہذیب اور معاشرت کی بھرپور نمائندگی کرتی ہے۔ منور راناکے سخن کے کئی حوالے ہیں، جو ہمیں غزل کے اس تازہ کار شاعر کی امتیازی شناخت کے اسباب تک پہنچاتے ہیں۔ ان کے اشعار میں رشتوں کا حسن ہے، وہ ٹوٹتے بکھرتے بشری رابطوں کو جوڑتے ہیں۔ وہ صارفیت کے اس عہد میں انسانی رشتوں کی قیمت نہیں، قدر طے کرتے ہیں۔ محنت کشوں کے پسینے کو انھوں نے اپنے قلم کی روشنائی بنایا ہے۔ منور رانا سماجی خرابیوں کے خلاف شکوہ نہیں احتجاج کرتے ہیں۔ حق وانصاف کی خاطر اقتدار سے ٹکر لیتے ہیں، جد وجہد کرتے ہیں۔ درد کو محفوظ کرنے والی ان کی غزلوں میں اداسی تو ہے لیکن قنوطیت نہیں۔ وہ خوابوں کے نہیں امیدوں کی شاعر ہیں۔ اپنی برتی اور اپنی جی ہوئی منو رانا کی شاعری آنسوؤں اور مسکراہٹوں کے درمیان کے فاصلے کو کم کرنا چاہتی ہے۔ وہ کسی خاص اہتمام سے شعر نہیں کہتے، بس اپنے دل کی بات لکھتے جاتے ہیں۔
Published: undefined
منور رانا کی بڑی شناخت یہ ہے کہ انھوں نے بت ہزار شیوہ غزل کو وہ معصویت اور تقدس بخشا ہے کہ وہ مہذب گھرانوں کی بہو بیٹی بن گئی ہے۔ غزل اپنی صدیوں پرانی روایت کے مطابق آج بھی صنف نازک سے مکالمہ کرتی ہے۔ لیکن یہ صنف نازک صرف محبوبہ کیوں؟ ماں، بیٹی، بہن یا بہو کیوں نہیں؟ منور رانا کی غزل اسی سوالیہ نشان کو تحلیل کرتی ہے۔
Published: undefined
غزل وہ صنف نازک ہے جسے اپنی رفاقت سے
وہ محبوبہ بنا لیتا ہے میں بیٹی بناتا ہوں
یہ چڑیا بھی مری بیٹی سے کتنی ملتی جلتی ہے
کہیں بھی شاخ گل دیکھے تو جھولا ڈال دیتی ہے
کہیں پر دیس کی رنگینیوں میں کھو نہیں جانا
کس نے گھر سے چلتے وقت یہ وعدہ کرایا ہے
رو رہے تھے سب تو میں بھی پھوٹ کر رونے لگا
ورنہ مجھ کو بیٹیوں کی رخصتی اچھی لگی
کس دن کوئی رشتہ مری بہنوں کو ملے گا
کب نیند کا موسم مری آنکھوں کو ملے گا
اچھلتے کھیلتے بچپن میں بیٹا ڈھونڈتی ہوگی
تبھی تو دیکھ کر پوتے کو دادی مسکراتی ہے
Published: undefined
بے لوث رشتوں کی خوبصورتی سے اپنے شعری کینوس کو سجانے والے منور رانا نے ’ماں‘ کے پاکیزہ موضوع کو اس قدر برتا ہے گویا انھوں نے اسے اپنے حق میں’ پیٹنٹ‘ کرالیا ہے۔ انھوں نے مختلف زاویوں اور پہلوئوں سے ماں پر اتنے اشعار کہے ہیں کہ ان کی الگ سے پوری ایک کتاب بن گئی ہے۔ میں تو سمجھتا ہوں ماں کے چہرے کو محبت سے نہارتے نہارتے، اس کی جھریوں کی تلاوت کرتے کرتے غزل جنتی ہوگئی۔
Published: undefined
کسی کو گھر ملا حصہ میں یا کوئی دکاں آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی
اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھو دیتی ہے
ماں بہت غصے میں ہوتی ہے رو دیتی ہے
یہ ایسا قرض ہے جو میں ادا کر ہی نہیں سکتا
میں جب تک گھر نہ لوٹوں میری ماں سجدے میں رہتی ہے
Published: undefined
منور رانا کی غزل، بچپن سے مکالمہ کرتی ہے۔ کسی ماں کی طرح بچوں کے دکھ سکھ میں شامل ہوتی ہے۔ یہ غزل جب بچوں کے بالوں میں انگلیاں پھیرتی ہے، ان کے گال سہلاتی ہے تو فرشتوں کی مسکراہٹ بن جاتی ہے۔ گھر آنگن میں کھیلتے نونہال ہوں یا اسکول جاتے بچے، کارخانے کے دھویں کی صدا پر لبیک کہتا بچپن ہو یا ٹرین کے ڈبے میں جھاڑو لگاتے ننھے منّے ہاتھ، وضو کرتے بچے ہوں یا مسجد کی چٹائی پر سوتے فرشتے یا پھر آنکھوں میں جھلملاتی کھلونوں کی حسرت۔ بچوں کے لبوں کی مسکراہٹ ہو یا ان کی آنکھ کے آنسو۔ منور رانا کے اس قبیل کے تمام شعروں میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے بچپن کا احترام، معصومیت کا تحفّظ۔ اس فکری پڑاؤ پر ان کی غزل ’’بچپن بچاؤ آندولن‘‘ سے کم نہیں لگتی۔ا
Published: undefined
نگلیاں تھامے ہوئے بچے چلے اسکول سے
صبح ہوتے ہی پرندے چہچہانے لگ گئے
بہت زخمی تھے اس کے ہونٹ لیکن
وہ بچہ مسکرانا چاہتا تھا
دھواں بادل نہیں ہوتا کہ بچپن دوڑ پڑتا ہے
خوشی سے کون بچہ کارخانے تک پہنچتا ہے
فرشتے آکے ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں
وہ بچے ریل کے ڈبے میں جو جھاڑو لگاتے ہیں
اس میں بچوں کی جلی لاشوں کی تصویریں ہیں
دیکھنا ہاتھ سے اخبار نہ گرنے پائے
میں ہوں مرا بچہ ہے کھلونوں کی دکاں ہے
اب کوئی مرے پاس بہانہ بھی نہیں ہے
Published: undefined
رشتوں کے حسن، اپنے پرائے گلابوں کی شگفتگی اور حالات کے جبر کا شکار مختلف گلی کوچوں کے چاند ستاروں کی آب وتاب کی بحالی کا پیغام عام کرتا غزل کا یہ معصوم اور بھولا چہرہ منور رانا کی مقبولیت کا ایک بڑاحوالہ ہے۔
(جاری)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined