یادوں کی بھینی بھینی مہک یاد آئے گی
دل میں جو اٹھ رہی ہے کسک یاد آئے گی
.
گزری ہے مست مست جو آوارگاں کے ساتھ
وہ زندگی بھی برسوں تلک یاد آئے گی
.
یارانِ میکدہ بھی بہت یاد آئیں گے
ہر جام ہر سبو کی کھنک یاد آئے گی
.
آئے گا ذکر جب کبھی اس نازنین کا
وہ شہر وہ گلی وہ سڑک یاد آئے گی
.
شیریں ہو گفتگو تو مزہ خوب آئے گا
چہرہ ہو چاند سا تو چمک یاد آئے گی
.
آنکھوں کی شوخیاں تیری بھولوں گا کس طرح
پلکوں تلک کی مجھ کو دھمک یاد آئے گی
صارمؔ کو جب ستائیں گی یادوں کی تتلیاں
تب آسمانِ دل کی دھنک یاد آئے گی
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined