اردو ادب میں ایسے قلمکار کم ہی ہیں جن کے فکشن میں زندگی کے فلسفے کی آمیزش ہے۔ جو وجودی مسائل کو اپنے ڈھنگ سے پیش کرتے ہیں۔ خالد جاوید اردو فکشن کے ایسے قلمکار ہیں جن کا فکشن اس انسان کے لیے لکھا گیا ہے جو ازل سے زوال کے مد مقابل کھڑا ہے اور جس کی زندگی کی کائنات پر موت اور انہدام کی حکمرانی ہے۔ خالد جاوید ایسا فکشن تخلیق کرتے ہیں جو انسان کو مضطر کرتا ہے۔ اس کے باطنی وجود کو جھنجوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ خالد جاوید کے ادبی قد کا اندازہ لگانے کے لئے یہ امر ہی کافی ہے کہ وہ اردو کے ایسے واحد فکشن نگار ہیں جن کے ایک ناول کے انگریزی ترجمے کو ملک کے ایک بڑے ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کے کئی افسانے اور ناول ملک اور غیر ملکی یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہیں۔ انکے فن اور شخصیت پر نہ صرف اردو کے اسکالروں نے بلکہ ہندی، انگریزی اور سماجیات کے اسکالروں نے بھی ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے ہیں۔ بر صغیر کے ہر بڑے تنقید نگار نے خالد جاوید کی فکشن نگاری کو سراہا ہے۔ خالد جاوید کی فکشن نگاری کا جائزہ لینے سے پہلے ان کے خاندانی پس منظر اور تعلیمی سفر پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
Published: undefined
خالد جاوید 9 مارچ 1963 کو بریلی (اتر پردیش ) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمد ولی خان زمیندار گھرانے سے تھے۔ ادبی ذوق کے حامل تھے۔ خالد کو بچپن سے خالص ادبی ماحول ملا، جہاں افسانے اور ناول پڑھنے اور پڑھ کر سنانے کا عام مشغلہ تھا۔ ان کے والد انہیں ابن صفی کے ناول پڑھ پڑھ کر سناتے تھے۔ خالد جاوید کو ننہال بھی ادبی طور سے مالا مال نصیب ہوئی۔ ان کی والدہ قیصر جہاں کا تعلق بدایوں کے ایک ادبی گھرانے سے تھا۔ قیصر جہاں قیصر بدایونی تخلص کے ساتھ شعر کہتی تھیں اور صاحب مجموعہ شاعرہ تھیں۔ ان کے سگے ماموں ابوالفضل صدیقی افسانہ نگار تھے۔ خالائیں فاطمہ انیس اور فاطمہ جلیس بھی ناول نگار تھیں۔ اسی ماحول کا نتیجہ تھا کہ خالد جاوید کی طبیعت بھی ادب کی طرف مائل ہو گئی۔ خالد جاوید نے پہلی کہانی ’ٹک ٹک - 20‘ اس وقت لکھی تھی جب انکی عمر محض 8 برس تھی۔
Published: undefined
خالد جاوید نے بی ایس سی، ایم اے (فلسفہ) ایم اے اردو، ایم بی اے اور اردو میں پی ایچ ڈی کیا۔ انہوں نے 5 برس تک بریلی کالج میں فلسفہ پڑھایا۔ ایک برس تک دہلی یونیورسٹی میں ریسرچ ایسوسی ایٹ رہے۔ 2001 میں جامعہ ملیہ سے منسلک ہو گئے۔ آج وہ پروفیسر کی حیثیت سے درسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ 2001 میں جامعہ سے ہی انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ ان کے مقالے کا موضوع تھا ’اردو تنقید پر مغربی فلسفوں کے اثرات‘ ۔ خالد جاوید کے اوپر ادبی ماحول کا ایسا اثر ہوا کہ وہ بچپن میں ہی تخلیقی دباؤ کے تحت کچھ نہ کچھ لکھنے کو مجبور ہو جاتے تھے۔ یہ تخلیقی دباؤ کچھ اس قدر ہوتا تھا کہ اپنے خیالات اور محسوسات لکھنے کے لئے اگر انہیں سادہ کاغذ دستیاب نہ ہوتا تھا تو سگریٹ کے پیکٹ کے اندرونی سادہ حصے پر ہی خیالات کو الفاظ کی شکل میں انڈیل دیا کرتے تھے۔ اسی کمسنی کے عالم میں ہی انہوں نے ایک جاسوسی ناول بھی لکھ دیا تھا۔ 'کہرا' نام کا یہ ناول ان کے ہم جماعتوں کے کرداروں پر مشتمل تھا۔ خالد جاوید تخلیق کے کرب کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ اسی تخلیق کے کرب کے ہاتھوں مجبور ہو کر انہیں کہانی ’کوبڑ‘ لکھنے کے لئے سڑک پر بیٹھنا پڑ گیا تھا۔ ’کوبڑ‘ ایسا تخلیقی شاہکار ہے جو جادھو پور یونیورسٹی اور بنارس ہندو یونیورسٹی کے ایم اے اردو کورس میں شامل ہے۔ خالد جاوید کے فن اور تخلیقات کی بر صغیر کے ہر بڑے تنقید نگار نے تعریف کی ہے۔ شمس الرحمان فاروقی، شمیم حنفی، وارث علوی، عتیق اللہ، آصف فرخی، شکیل الرحمان اور شکوہ محسن مرزا جیسے ناقدین نے خالد کے فن کو سراہا ہے۔
Published: undefined
خالد جاوید کی فکشن نگاری پر پروفیسر شمیم حنفی کی رائے یہ ہے، ’’خالد جاوید کی کہانیوں میں بیان کی سطح پر بالعموم ایک ساتھ دو کہانیاں چلتی ہیں۔ ایک تو وہ جس کا تعلق ہمارے سامنے کی دنیا سے ہے اور جس کے مظاہرے ہمارے روزمرہ میں شامل ہیں اور دوسری وہ جس تک پہونچنے کے لئے ہمیں اپنے مانوس گرد و پیش کے دائرے کو توڑ کر اس شہر طلسمات سے گزرنا پڑتا ہے جو ہمارے باطن میں آباد ہے۔ خالد جاوید اپنے عام معاصرین کے برعکس بس وہی کچھ دیکھنے پر قانع نہیں ہوتے جو سامنے دکھائی دیتا ہے۔ ان کی کوشش ہوتی ہے اپنے کرداروں اور ان کرداروں کے واسطے سے رونما ہونے والی انسانی صورتحال کے مخفی اور مرموز گوشوں اور سطحوں تک پہونچنے کی۔‘‘
خالد جاوید انسانی مسائل کو بہت آسانی کے ساتھ تحریر کرنے پر ملکہ رکھتے ہیں۔ سیاسی اور تاریخی شعور کے حامل قاری ہی انکے ناولوں اور افسانوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ ان کے ایک افسانے 'آخری دعوت' کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے:
’’میں بے تحاشہ کھائے جا رہا تھا اور یقیناً یہ ایک حیرت انگیز بات تھی۔ ایک ناقابل فہم سی بات۔ ان کی زبان سے یہ جملہ سنتے ہی کہ وہ کبھی بھی مر سکتی ہیں، میرے اندر نہ جانے کہاں کی اور کب کی سوئی ہوئی بھوک جاگ اٹھی تھی۔ میں ازلی بھوکا تھا۔ اگرچہ بھوک انسانی قالب میں پوشیدہ ایک حیوان کی ضرورت بلکہ جبلّت تھی، مگر شاید اس وقت میرے شانوں پر ایک اجتماعی بھوک سوار تھی۔ میں اپنے لیے نہیں لاشعوری بھوک کے پھندے میں پھنسی نسل انسانی سے پہلے نموپذیر ہونے والی تمام چھپکلیوں کے لیے کھا رہا تھا۔ میں ارتقا کے سفر میں، اجنبی راستے پر ایک خود رو جنگلی پودے کی طرح اگے ہوئے انسانی جبڑے کا قرض ادا کر رہا تھا۔ وہ ایک اکیلا جبڑا، جس نے چبانا سیکھا تھا۔ تبدیل ماہیت ہوتی ہوئی گھٹتی، اور لتھڑتی ہوئی زندگی کا اتارا گیا ایک ایک چھلکا میرے اوپر آسیب کی طرح سوار تھا۔‘‘
Published: undefined
خالد جاوید کو اپنی تحریروں کے حوالے سے مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ انکے ناول 'موت کی کتاب' کے خلاف پٹنہ سے نکلنے والے ایک رسالے نے ایک مجلہ ہی شائع کر دیا تھا لیکن خالد جاوید کو اپنی تحریروں کی مخالفت سے نیا جوش اور حوصلہ ملتا ہے۔ مخالفت کو وہ اپنی طاقت سمجھتے ہیں۔ کچھ بھی لکھنے سے پہلے خالد جاوید موضوع سے متعلق خوب ریسرچ کرتے ہیں۔ 'موت کی کتاب' ناول لکھنے سے پہلے خالد جاوید نے کئی پاگل خانوں کا دورہ کیا تھا اور کافی ریسرچ کی تھی۔
کہیں کہیں تو ان کی نثر پر نظم کا گمان ہوتا ہے۔ 'موت کی کتاب' کا ایک اقتباس پڑھئے اور ان کے طرز تحریر پر سر دھنئے:
’’میں خودکشی کو اکثر اپنے سامنے بیٹھی مسکراتی ہوئی بھی دیکھتا ہوں۔ یہ بڑی مہربان مسکراہٹ ہے۔ شاذ و نادر ہی اس مسکراہٹ میں طنز پیدا ہوتا ہے وہ بھی تب جب میری بے غیرتیاں اور حماقتیں خود میرے لئے بھی ناقابل برداشت ہو جاتی ہیں۔ ورنہ خود کشی کی اس مسکراہٹ کی ڈھلان اور اس کے کونے ہمیشہ ٹھنڈے اور صاف شفاف پانی کی ایک جھیل پر جھکے رہتے ہیں۔ وہ جھیل قدرتی نہیں ہے اسے تو خودکشی نے ہی بڑے بڑے اونچے پہاڑوں کو توڑ کر اور بھاری پتھروں کا ملبہ خود اپنے ہی جفا کش، ہنر مند اور بے باک ہاتھوں سے تشکیل دیا ہے۔‘‘
Published: undefined
2022 میں ان کے ناول 'نعمت خانہ' کے انگریزی ترجمے دی پیراڈائیز آف فوڈ‘ کو جے سی بی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 'نعمت خانہ' کا انگریزی میں ترجمہ باراں فاروقی نے کیا ہے۔ جے سی بی ایوارڈ 'نوبل' اور 'بکر پرائز' کے بعد سب سے بڑا ادبی ایوارڈ ہے۔
'نعمت خانہ ' کا ایک اقتباس پیش ہے، ’’ہاں مگر انسان کی ماہیت کے بارے میں ایک بات کا مجھے بخوبی علم ہے یا احساس ہے بلکہ میں اسے احساس کی سطح پر ہی رکھنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ احساس جیسے ہی علم بنتا ہے لوگ علم کو اپنے دماغ پر اس طرح باندھ لیتے ہیں جیسے سؤر کو باڑے میں۔ اور وہ احساس یہ ہے انسان اپنی آنتوں کے اندر رہتا ہے۔ انسان کے اعضائے پوشیدہ تو انسانوں کے ہونے کے امکان، ان کی پرچھائیوں کے ٹھکانے ہیں۔ ذہنی اور روحانی طور پر انسان اپنی آنتوں کے اندر ہی چھپا رہتا ہے۔ اپنی بد نیتی اپنے چٹورپن اور اپنی بھوک کو دوسرے کے منھ پر مارتا ہوا، ایک دوسرے کی بھوک کے ذلیل لال رنگ سے دوسرے کا منھ سنا ہوا یہ خون کی ہولی ہے۔‘‘
Published: undefined
ان کی تصانیف میں 'برے موسم میں' کہانیوں کا مجموعہ۔ 'آخری دعوت'، کہانیوں کا مجموعہ، 'تفریح کی ایک دوپہر' کہانیوں کا مجموعہ، 'موت کی کتاب' ناول، 'ایک خنجر پانی میں'، 'تین کہانیاں'، کہانیوں کا مجموعہ ، 'ارسلان اور بہزاد' ناول، 'یہ کس کا خواب تماشا ہے' میلان کنڈیرا (تنقید )، 'گابریل گارسیا مارکیز۔ فن اور شخصیت'، 'ستیہ جیت رے کی کہانیاں' ترجمہ، 'کار جہاں دراز ہے۔ کرداروں کا توضیحی اشاریہ' اور ہند سوراج ( گاندھی جی کی کتاب کا اردو میں ترجمہ شامل ہیں۔
خالد جاوید کے افسانوں اور ناولوں کے ترجمے ہندی اور انگریزی کے علاوہ فرانسیسی اور ہسپانوی زبان میں بھی ہو چکے ہیں۔ خالد جاوید کی متعدد کہانیاں اور ناول غیر ممالک کی اہم یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہیں۔ 'آخری دعوت، پرنسٹن یونیورسٹی نیو جرسی امریکہ کے ساوتھ ایشین اسٹیڈیز شعبے کے کورس میں شامل ہے۔ ناول 'نعمت خانہ'؛ پیرس کی درسگاہ 'انالکو' کے شعبہ اردو کے نصاب میں شامل ہے۔ ملک اور بیرونی ملکوں کی کئی یونیورسٹیز میں خالد جاوید کے فن اور شخصیت پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے گئے ہیں۔ صرف اردو ہی نہیں بلکہ انگریزی، ہندی اور سماجیات کے شعبوں کے اسکالروں نے بھی خالد جاوید کی فکشن نگاری پر تحقیقی مقالے لکھے ہیں۔
خالد جاوید اپنی بازیافت میں سرگرم ہیں۔ انہوں نے جو کچھ بھی تحریر کیا ہے خود کو تلاش کرنے اور پانے کی جستجو میں لکھا ہے۔ خالد جاوید کو یہ ملال ہے وہ جو لکھنا چاہتے ہیں ابھی تک لکھ نہیں سکے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز