افیمی ظلم کو تقدیر کہہ کر سو رہا ہے
سو ہرن کو شیر کھا جائے
عقابوں کے جھپٹتے غول سہمے میمنے کو نوچتے جائیں
کوئی بکری کسی چیتے کو تھوڑی گھاس کے بدلے سبھی اعضا کھلا بیٹھے
ہزاروں مکّھیوں کی سخت محنت سے بنا سارے کا سارا شہد کوئی ریچھ لے جائے
کسی بندر کے پاگل پن میں پھینکے پتّھروں سے اڑنے والی کوئی چنگاری بھلے جنگل جلا ڈالے
ہزاروں گھاس خوروں نے کئی دن سے گلوں کو خشک رکھا ہو
Published: undefined
ندی میں خون کی بو ہو
ندی میں خون بھر جائے
ندی کو آگ لگ جائے
افیمی کی بلا سے
یہ افیم ایسا نشہ ہے جس کا عادی نیند کو ہی مسئلوں کا حل سمجھتا ہے
سہانے خواب آتے ہیں
افیمی سبز لفظوں سے بُنی لوئی کے نیچے سویا رہتا ہے۔
افیمی اینٹ، بجری، ریت، سیمنٹ سے بنے جنگل کی غاروں میں مزے سے سویا رہتا ہے
سو خوابیدہ افیمی کو تو چاہے مار بھی ڈالو
اسے کیا فرق پڑنا ہے
Published: undefined
مگر اس نیند سے اس کو جگانے کی حماقت کوئی مت کرنا
افیمی کاٹ کھائے گا۔
افیمی آگ میں جلتے ہوئے معصوم لوگوں کو مزے سے صبر کی تلقین کر کے سو رہا
افیمی سو رہا ہے
...شعیب کیانی
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined