شاعری

نظم: افیمی سو رہا ہے... شعیب کیانی

کسی بندر کے پاگل پن میں پھینکے پتّھروں سے اڑنے والی کوئی چنگاری بھلے جنگل جلا ڈالے

نظم: افیمی سو رہا ہے... شعیب کیانی
نظم: افیمی سو رہا ہے... شعیب کیانی 

افیمی ظلم کو تقدیر کہہ کر سو رہا ہے

سو ہرن کو شیر کھا جائے

عقابوں کے جھپٹتے غول سہمے میمنے کو نوچتے جائیں

کوئی بکری کسی چیتے کو تھوڑی گھاس کے بدلے سبھی اعضا کھلا بیٹھے

ہزاروں مکّھیوں کی سخت محنت سے بنا سارے کا سارا شہد کوئی ریچھ لے جائے

کسی بندر کے پاگل پن میں پھینکے پتّھروں سے اڑنے والی کوئی چنگاری بھلے جنگل جلا ڈالے

ہزاروں گھاس خوروں نے کئی دن سے گلوں کو خشک رکھا ہو

Published: undefined

ندی میں خون کی بو ہو

ندی میں خون بھر جائے

ندی کو آگ لگ جائے

افیمی کی بلا سے

یہ افیم ایسا نشہ ہے جس کا عادی نیند کو ہی مسئلوں کا حل سمجھتا ہے

سہانے خواب آتے ہیں

افیمی سبز لفظوں سے بُنی لوئی کے نیچے سویا رہتا ہے۔

افیمی اینٹ، بجری، ریت، سیمنٹ سے بنے جنگل کی غاروں میں مزے سے سویا رہتا ہے

سو خوابیدہ افیمی کو تو چاہے مار بھی ڈالو

اسے کیا فرق پڑنا ہے

Published: undefined

مگر اس نیند سے اس کو جگانے کی حماقت کوئی مت کرنا

افیمی کاٹ کھائے گا۔

افیمی آگ میں جلتے ہوئے معصوم لوگوں کو مزے سے صبر کی تلقین کر کے سو رہا

افیمی سو رہا ہے

...شعیب کیانی

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined