آخر پاکستان میں می ٹو ایک کمزور تحریک کیوں رہی؟ اس سوال کا جواب دینا آسان نہیں ہے۔ حالانکہ پاکستان کی میڈیا انڈسٹری سے وابستہ میشا شفیع ایک بااثر اور تعلقات رکھنے والی شخصیت ہیں لیکن ان کی اور چند اور خواتین کی جانب سے علی ظفر پر لگائے گئے الزامات کے باوجود یہ معاملہ اب ختم ہی ہو گیا ہے۔
Published: undefined
پاکستان کی ملٹی میڈیا صحافی امبر رحیم شمسی نے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان میں می ٹی تحریک کے دروازے میشا شفیع اور علی ظفر کے کیس کی بدولت کھل سکتے تھے۔ اب یہ دونوں شخصیات ایک قانونی جنگ لڑ رہے ہیں۔‘‘
Published: undefined
صحافی تنزیلہ مظہر جو کہ خود جنسی ہراسگی کا شکار بنیں اور عدالت بھی گئیں، نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ’’پاکستان میں اب بھی خواتین دفاتر اور کام کی جگہوں پر اپنی شناخت کے لیے لڑ رہی ہیں۔ ہالی ووڈ اور ہندوستان میں خواتین افرادی قوت کا ایک اہم حصہ ہیں اور اپنے آپ کو منوانے میں کامیاب ہو گئیں ہیں۔‘‘
Published: undefined
میشا شفیع کی جانب سے علی ظفر پر لگائے جانے والے الزامات کے باوجود بہت کم خواتین ہراسگی کی شکایت کے ساتھ منظر عام پر آئیں۔ اس حوالے سے پاکستانی صحافی فرحت جاوید ربانی کا کہنا ہے، ’’گزشتہ چند دہائیوں میں پاکستان میں کام کرنے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے تاہم اسی رفتار سے معاشرے کی سوچ تبدیل نہیں ہوئی اور بہت سے مرد اور خواتین بھی گھر سے باہر نکل کر کام کرنے والی خواتین کے بارے میں بہت مثبت سوچ نہیں رکھتے۔‘‘
Published: undefined
ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن آن لائن ہراسگی کا شکار بننے والی خواتین کو قانونی اور نفسیاتی مدد فراہم کرتی ہے۔ اس تنظیم کی بانی نگہت داد نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’اکثر متاثرہ خواتین کے پاس مالی وسائل نہیں ہوتے اس لیے وہ قانونی راستہ اختیار نہیں کر پاتیں۔‘‘ داد کی رائے میں جتنی زیادہ خواتین آواز اٹھائیں گی اتنا ہی دوسری خواتین کے لیے بولنا آسان ہو جائے گا۔
Published: undefined
یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جنسی ہراسگی اب بھی پاکستانی معاشرے میں ایک ایسا موضوع ہے جس پر کھل کر بات کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ بعض اوقات جنسی ہراسگی کے خلاف آواز اٹھانے والی خواتین کو نوکری سے نکال دیا جاتا ہے یا پھر اپنے ہی خاندان کی ناراضگی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
Published: undefined
صحافی تنزیلہ مظہر کہتی ہیں کہ پاکستان میں ہراسگی کو بطور جرم نہیں لیا جاتا، خواتین کو کہا جاتا ہے کہ وہ مناسب لباس پہنیں اور اگر کسی عورت نے شکایت کر دی تو اسے خاموش رہنے کو کہا جائے گا۔ اس سال آٹھ سالہ زینب کے ساتھ جنسی تشدد کے بعد اس کی ہلاکت کی خبر کو میڈیا نے کافی اٹھایا تھا لیکن اس ہولناک سانحے پر زیادہ گفتگو سوشل میڈیا پر نظر آئی۔ ایسی خبر سننے کو نہیں ملی کے اس بچی کی موت کے بعد لوگ سٹرکوں پر نکل آئے ہوں اور سرکاری مشینری کو کوئی فوری ایکشن لینے پر مجبور کیا گیا ہو۔ اس کے برعکس 2012 میں دہلی کا نربھیا ریپ کیس ہندوستان کے کئی بڑے شہروں میں لوگوں کو سڑکوں پر لے آیا تھا۔ زبردست اور زوردار احتجاج اور تحریک نے ہندوستان کو جنسی زیادتی سے متعلق قوانین تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ زینب کیس میں بہرحال مجرم کو سزا سنائی گئی جسے ایک مثبت پیش قدمی ٹہرانا ہوگا۔
Published: undefined
امبر شمسی کی رائے میں پاکستان میں جب تک آواز اٹھانے والی خواتین کو دوستانہ ماحول اور قانونی معاونت فراہم نہیں کی جائے گا تب تک پاکستانی خواتین خاموشی سے زیادتیاں برداشت کرتی رہیں گی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined