بیچارے عمران خان! پاکستانی فوج کسی حکمراں کو ’اللہ حافظ‘ کہہ دے تو وہ دو چار روز تو اپنی کرسی بچا سکتا ہے، لیکن پھر اس کو اقتدار سے بے دخل ہونا ہی پڑتا ہے۔ عمران خان کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا۔ فوج نے کوئی دس بارہ روز اس وقت عمران کو اللہ حافظ کہہ دیا جب آرمی چیف قمر باجوا نے ایک سیمینار میں امریکہ کے تئیں عمران خان کی خارجہ پالیسی سے اپنی ناراضگی کا اعلان کر دیا۔ بس اس وقت یہ طے ہو گیا کہ اب عمران خان کی اقتدار میں پاری ختم۔ اتنا ضرور ہوا کہ سپریم کورٹ جا کر خان صاحب نے ہفتے بھر کی مہلت حاصل کر لی۔ لیکن ہمیشہ کی طرح آخر وہی ہوا جو فوج چاہتی ہے۔ عمران خان آخر اقتدار سے بے دخل ہوئے۔ لیکن عمران ایک بڑے کھلاڑی ہیں۔
Published: undefined
سنہ 1980 کی دہائی میں انھوں نے عالمی کرکٹ میں دھوم مچائی۔ میدان سیاست میں جب قدم رکھا تو جلد ہی ملک کی کپتانی حاصل کر لی۔ گو اس کے لیے اس وقت انھوں نے فوج کا دامن پکڑا۔ لیکن فوج سے ان کی کوئی لمبے عرصے تک نبھ نہیں سکی۔ محض ساڑھے تین سالوں میں خان صاحب نے خارجہ پالیسی میں فوج کی اَن دیکھی کرنا شروع کر دی۔ وہ چین کے اس قدر قریب چلے گئے کہ ان کے نکتہ چیں یہ کہنے لگے کہ پاکستان تو اب چین کا ایک صوبہ ہو گیا ہے۔ وہ پاکستان جو امریکہ کے اشاروں پر ناچتا تھا، عمران خان کی قیادت میں اسی پاکستان کا یہ عالم ہوا کہ خود وزیر اعظم پاکستان اس روز ماسکو میں تشریف فرما تھے جس روز روسی فوجیں امریکہ کی مخالفت میں یوکرین پر حملہ آور تھیں۔ اور تو اور، اسلامی ممالک کی سیاست میں پاکستان اور پاکستانی فوج سعودی عرب کے آگے دو زانو رہتی ہے۔ مگر خان صاحب نے کچھ معاملات میں اسلامی ممالک کے مسائل پر سعودی عرب سے دوری برتی اور مسلم سیاست میں ابھرتے نئے ایکسس ترکی، ایران اور ملیشیا کا ساتھ دیا۔
Published: undefined
پاکستانی نظام کے اعتبار سے یہ پاکستانی فوج کے خلاف بغاوت کا اعلان تھا۔ یہ جرأت محض ذوالفقار علی بھٹو نے سنہ 1970 کی دہائی میں امریکہ سے دوری برت کر کیا تھا یا نواز شریف نے ہندوستان سے قربت کی پالیسی اختیار کر دکھائی تھی۔ دونوں کے حشر سے آپ واقف ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ضیاء الحق نے پاکستانی سیاستدانوں کو سبق سکھانے کے لیے سولی پر چڑھوایا۔ بعد میں ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو کو جنرل مشرف نے گولی مروا دی۔ نواز شریف کو فوج کی مرضی کے خلاف قدم اٹھانے کے لیے ایک بار جدہ اور دوسری بار لندن میں جان کی امان کے لیے پناہ لینی پڑی۔ اب دیکھیں عمران خان کا کیا ہوتا ہے۔
Published: undefined
الغرض عمران خان پاکستانی سیاست کے نئے باغی ہیں۔ انھوں نے خارجہ پالیسی میں فوج کی حکم عدولی کر پاکستانی فوج اور نظام کے خلاف اعلان بغاوت کر دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا دوسرے پاکستانی باغیوں کی طرح ان کا کیا حشر ہوگا۔ کیا عمران، بھٹو اور بے نظیر کی طرح جان سے ہاتھ دھوئیں گے یا پھر آخر معافی تلافی کر نواز شریف کی طرح ملک سے باہر جلاوطنی کی زندگی کاٹیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان یہ سمجھ رہے ہیں کہ سیاست کے جس گیم میں وہ اب داخل ہو رہے ہیں، وہ کھیل کوئی آسان کھیل نہیں ہے۔ اب وہ اقتدار سے باہر ہیں اور پہلے ان کو فیلڈنگ کرنی ہے۔ خان صاحب ہمیشہ سے اپنی شاندار تیز بالنگ کے لیے مشہور رہے ہیں۔ چنانچہ میدان سیاست میں بھی اس بار پھر تیز بالنگ کرنے کا فیصلہ لیا ہے۔ ان کو معلوم ہے کہ ان کا مقابلہ محض سیاسی جماعتوں سے نہیں بلکہ پس پردہ فوج کی قیادت میں پورے پاکستانی نظام سے ہے۔ اور پاکستانی نظام کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ تین ’اے‘ یعنی آرمی، اللہ اور امریکہ پر منحصر ہے۔ یعنی پاکستانی نظام کی کمان فوج، مدرسوں (اللہ) اور امریکہ کے ہاتھوں میں ہے۔
Published: undefined
پھر آج کی سیاست میں چناؤ جیتنے کے لیے الیکٹرانک یعنی ٹی وی میڈیا کی حمایت بھی ضروری ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی نظام کے ان تمام عناصر کی حمایت خان صاحب کو حاصل ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ فوج اور ان سے تو اب کھلی جنگ ہے۔ پاکستانی مدرسوں سے ان کو حمایت حاصل ہونا تقریباً ناممکن ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مدرسوں کی کمان سعودی عرب اور فوج کے ہاتھوں میں ہے۔ سعودی عرب خان صاحب سے کچھ خوش نہیں۔ پھر عالمی معاملات میں امریکہ مخالف کو سعودی حمایت کبھی حاصل نہیں ہوتی۔ چنانچہ پاکستانی سیاست کی مذہبی قیادت مدرسوں کے ذریعہ عمران خان کی حمایت تو درکنار، مخالفت ہی کرے گی۔ رہی بات امریکہ کی، تو اس کی مخالفت کا اعلان تو عمران خان کر ہی چکے ہیں۔
Published: undefined
جیسا عرض کیا، عمران خان اپنی نئی گیم کی شروعات ’امریکہ کا جو یار ہے، غدار ہے غدار ہے‘ جیسی خطرناک تیز گیندبازی سے کر رہے ہیں۔ خان صاحب کی نئی سیاست دو دھاری تلوار ہے۔ دو دھاری اس لیے کہ اس نعرے کے اعلان کے ساتھ وہ پاکستانی عوام کے دلوں میں دبے امریکہ مخالف جذبہ کو ہوا دے کر فوج سمیت اپنے تمام سیاسی مخالفین کو پسپا کرنا چاہ رہے ہیں۔ اب چناؤ تک عمران خان کی سیاست یہ ہے کہ وہ فوج نہیں امریکہ کے شہید ہیں اور امریکہ اسلام و مسلم دشمن ہے۔ اس لیے وہ عوام کی ہمدردی کے مستحق ہیں۔ پاکستان جیسے اسلامی ملک میں یہ چناوی حکمت عملی ہے تو بڑی پراثر۔ کیونکہ پاکستانی عوام کو یہ اچھی طرح احساس ہے کہ ان کے سروں پر مسلط فوج کو ہمیشہ سے امریکہ کی سرپرستی حاصل ہے۔ یعنی عمران خان نے امریکہ مخالفت کا ڈنکا بجا کر عوام کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ لیکن اس حکمت عملی کا دوسرا خطرناک پہلو یہ ہے کہ پورے عالم اسلام میں بھٹو سے لے کر لیبیا کے قذافی تک جس نے امریکہ کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اسے دیر سویر جان سے ضرور ہاتھ دھونا پڑا۔
Published: undefined
اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے امریکہ اور پاکستانی فوج کے خلاف اپنی نئی چناوی حکمت عملی کا ڈنکا بجا کر بڑی جرأت کا کام کیا ہے۔ وہ بیک وقت امریکہ، فوج، مدرسوں اور میڈیا کے ساتھ ساتھ تمام پاکستانی سیاسی پارٹیوں کے خلاف جنگ آزما ہیں۔ یعنی خان صاحب پاکستانی سیاست میں چلے آ رہے وہاں کی جمہوریت اور فوجی ڈکٹیٹرشپ کے درمیان عرصے سے جو تضاد رہا ہے، اس تضاد کو ختم کرنے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ جرأت ان سے قبل اس طرح کھل کر محض ذوالفقار علی بھٹو اور کسی حد تک بے نظیر اور ہندوستان کے معاملے میں نواز شریف نے کی تھی۔ ان سب کے حشر سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ اب دیکھیں نئے پاکستانی باغی عمران خان اس چکرویوہ کو توڑ پاتے ہیں کہ نہیں!
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز