زمینہ نے چھٹا بچہ پیدا کرنے کی بجائے اپنی زندگی خطرے میں ڈالتے ہوئے خفیہ طریقے سے اسقاط حمل کا فیصلہ کیا۔ وہ ان دو ملین سے زائد خواتین میں سے ایک ہیں، جو پاکستان میں ہر سال خفیہ طور پر اسقاط حمل کے عمل سے گزرتی ہیں۔ پاکستان میں ان مسائل کی بنیادی وجوہات مذہبی رہنماؤں کی جانب سے خاندانی منصوبہ بندی کے اقدامات پر تنقید، مانع حمل اشیاء اور ادویات تک عدم رسائی اور جنسی تعلیم کی کمی جیسے امور ہیں۔
Published: 19 Feb 2019, 10:09 AM IST
امریکی ادارے گُٹماچر انسٹی ٹیوٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال حاملہ ہونے والی خواتین میں سے نصف، یعنی قریب چار اعشاریہ دو ملین خواتین، بغیر طے کیے حاملہ ہوتی ہیں اور ان میں سے 54 فیصد ابورشن یا اسقاطِ حمل کرواتی ہیں۔
Published: 19 Feb 2019, 10:09 AM IST
زمینہ نے (خاتون کے تحفظ کی خاطر نام تبدیل کیا گیا ہے) پاکستانی شہر پشاور میں خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا، ’’تین سال پہلے، میری بیٹی پیدا ہوئی تھی، تو ڈاکٹر نہیں کہا تھا کہ اب مزید بچے پیدا نہ کروں کیوں کہ یہ میری صحت کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔‘‘
Published: 19 Feb 2019, 10:09 AM IST
اس 35 سالہ خاتون نے مزید کہا، ’’مگر میں جب بھی اپنے شوہر سے بات کرتی ہوں، وہ کہتا ہے، خدا پر بھروسا رکھو۔ میرا شوہر ایک مذہبی شخص ہے اور وہ بیٹوں کی قطار چاہتا ہے۔‘‘
Published: 19 Feb 2019, 10:09 AM IST
کئی دہائیاں قبل پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کی مہم کا نعرہ تھا، ’’بچے دو ہی اچھے‘‘ مگر اس نعرے کو مذہبی طبقے کے علاوہ قوم پرستوں نے بھی مسترد کر دیا تھا، جو ہم سایہ ملک بھارت کی ایک اعشاریہ دو ارب آبادی کے تناظر میں ملک کی آبادی میں اضافہ چاہتے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ آبادی دو سو سات ملین ہے۔
Published: 19 Feb 2019, 10:09 AM IST
زمینہ کے مطابق، ’’میں جب بھی اپنے شوہر سے خاندانی منصوبہ بندی کا کہتی ہوں، وہ مسترد کر دیتا ہے۔ میری ساس کے 9 بچے ہیں۔ جب میں اپنے شوہر سے شکایت کرتی ہوں کہ میں مزید بچے پیدا نہیں کر سکتی، تو وہ کہتا ہے، جب میری ماں نہیں مری تو تم بھی زندہ رہو گی۔‘‘
Published: 19 Feb 2019, 10:09 AM IST
واضح رہے کہ پاکستان میں قانون طور پر اگر ماں کی زندگی کو خطرات لاحق ہوں، تو اسقاط حمل کی اجازت ہے، تاہم بہت سے ڈاکٹرز اسلامی عقیدے کی بنا پر اسقاط حمل کرنے سے کتراتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان خواتین کو غیر قانونی طور پر یہ عمل سرانجام دینا پڑتا ہے جب کہ حکام اس جانب دخل اندازی نہیں کرتے۔
Published: 19 Feb 2019, 10:09 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 19 Feb 2019, 10:09 AM IST
تصویر: پریس ریلیز