حال ہی میں پشاور میں ایک اور سینما کو بند کردیا گیا ہے جس کے بارے میں باور کیا جاتا ہے کہ دیگر کی طرح اسے بھی کمرشل پلازہ میں تبدیل کیا جائیگا۔ خیبر پختونخوا میں پہلے سے موجود سینما گھروں کو یکے بعد دیگرے بند کیا جارہا ہے۔ اس دوران جہاں حکومتی ادارے پہلے سے موجود سنیما گھروں کو کمرشل پلازوں میں تبدیل کرنے سے روکنے میں ناکام رہے وہاں کوئی نیا سنیما گھر تعمیر بھی نہیں ہوسکا۔
Published: undefined
موجود قانون کے مطابق تفریحی مقاصد کے لیے مختص کی گئی زمین پر کمرشل سرگرمیاں ممنوع ہیں لیکن اس کے باوجود پشاور کے 16 میں سے 10 سنیما گھر کمرشل پلازوں میں تبدیل کیے جا چکے ہیں۔ باقی رہ جانے والے سنیما گھر بھی ویران نظر اتے ہیں جس کی بنیادی وجوہات بتاتے ہوئے کلچر جرنلسٹ فورم کے صدر احتشام طورو کا کہنا تھا، ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ سینما گھروں کے خاتمے میں دہشت گردی کا اہم کردار رہا لیکن حکومت نے بھی اس صنعت پر توجہ نہیں دی۔ بے پناہ ٹیکس لگائے گئے، سنیما مالکان، پرڈیوسرز اور دیگر متعلقہ افراد کی ایک نہیں سنی گئی۔ اسی طرح سی ڈی ڈراموں،کیبل ٹیلی وژن نے بھی سنیما کی اہمیت کم کردی اور لوگ اپنی پسند کی فلم گھر بیٹھ کر دیکھتے رہے۔‘‘
Published: undefined
احتشام طورو کا مزید کہنا ہے کہ پشتو فلموں کی غیر معیاری پروڈکشن بھی سینما کی ناکامی کی ایک اور بڑی وجہ ہے: ’’پروڈیوسر کم سرمائے میں فلم بنانے اور زیادہ پیسے کمانے کے چکر میں معیار کو بھول گئے ہیں۔ وہی پرانی کہانیاں اور وہی کلاشنکوف کلچر پر مبنی فلموں سے شائقین نے بھی منہ موڑ لیا۔ اس صنعت کی تباہی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پختونخوا بھر کے 60 سنیما گھروں میں اب صرف دس رہ گئے ہیں۔ حکومت اور سنیما مالکان کے مابین خلیج کم نہ ہوسکی جو سنیما کلچر کی تباہی کا باعث بنی اور عوام کو سستی تفریح سے محروم کردیا گیا۔‘‘
Published: undefined
دارالحکومت پشاور سمیت صوبہ خیبر پختونخوا کے دیگر شہروں میں بھی سنیما گھر ختم کرکے ان کی جگہ کمرشل مارکیٹیں بنائی گئی ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات میں کمی کے بعد سی ڈی ڈراموں اور فلموں کا دور شروع ہوا اور اس میں پرڈیوسر اور فنانسرز نے کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کی۔ اس سے بھی عوام کو ایک سستی تفریح میسر تھی لیکن حکومتی ادارے اسے بھی ریگولرائز نہ کرسکے اور حکومتی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے اس میں ایسے لوگوں نے سرمایہ کاری کی جو غیر معیاری اور مقامی کلچر کے مخالف فلمیں اور ڈرامے تیار کرنے لگے اور یوں اس صنعت کی تباہی سے دوچار کردیا۔
Published: undefined
معیاری فلموں کی تیاری کے حوالے سے جب ڈوئچے ویلے نے معروف فلم ساز اور سنیما کے مالک شاہد خان سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ’’اب بھی فلم بین آتے ہیں لیکن بات وہی ہے کہ حکومت اس صنعت کو انڈسٹری کے طور پر تسلیم نہیں کرتی۔ حکومت اگر فلم پرڈیوسرز کو آسان شرائط پر قرضے دے، سنیما ہال کی تعمیر و مرمت و بحالی میں مالی معاونت کرے تو اب بھی یہ انڈسٹری اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بے شک شاپنگ سنٹرز اور پلازے بنائے جائیں لیکن ان میں سنیما ہال بھی بنائے جائیں: ’’ا گر یہ سنیما ہال ماہر لوگوں کو کرائے پر دیے جائیں تو ہزاروں لوگوں کا کاروبار بھی چل پڑے گا۔ یہ ہال حکومت خود بنائے۔‘‘
Published: undefined
شاہد خان کا کہنا تھا کہ وہ خود بھی ایک جدید سنیما ہال بنانے رہے ہیں: ’’یہاں سنیما کے ختم ہونے پر پروڈیوسر، اداکار اور تیکنیکی عملہ بے روزگار ہوگیا اور سنیما سے وابستہ نان ٹیکنیکل اسٹاف کی حالت بہت بری ہے۔ ان کے گھروں میں فاقوں تک نوبت آ چکی ہے۔ جب تک حکومتی سرپرستی نہ ہو مشکلات میں کمی کو توقع نہیں کی جاسکتی۔‘‘
Published: undefined
فلمی صنعت اور سنیما کو درپیش مسائل کے باوجود آج بھی باقی رہ جانے والے سنیما ہالز میں پشتو فلموں کی نمائش باقاعدگی سے ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں سب سے زیادہ فلمیں پشتو میں بنتی ہیں جو نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان میں دیکھی جاتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دیگر فنانسر اور ڈائریکٹر بھی اس میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined