پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے یہ بیان گزشتہ روز جاری کیا تھا، جس میں مزید کہا گیا کہ ''حکومت سمجھ رہی تھی کہ اب تک ہمارے اسپتال بھر جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا اور یہ کہ کرونا کے کیسز جتنی ہم امید کر رہے تھے وہ اتنی تعداد میں نہیں ہیں۔‘‘
Published: undefined
واضح رہے پاکستان میں کرونا کیسز کی تعداد اس رپورٹ کے شائع ہونے تک سولہ ہزار آٹھ سو سترہ تھی، جس میں پنجاب میں چھ ہزار تین سو چالیس، سندھ میں چھ ہزار تریپن، خیبرپختونخوا میں دو ہزار چھ سو سٹرسٹھ، بلوچستان میں ایک ہزارانچاس، اسلام آباد میں تین سو تینتالیس، گلگت بلتستان میں تین سو انتالیس اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں چھیاسٹھ تھی۔ ملک میں کرونا کے کسیز بڑھ رہے ہیں اور اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سمیت کئی نامی گرامی شخصیات بھی اس کا شکا ر ہو گئی ہیں۔
Published: undefined
حکومت اس تعداد کو کم سمجھتی ہے لیکن روزنامہ ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق ایسے کسیز کی تعداد تیس مئی تک ڈیڑھ لاکھ سے بھی زیادہ ہو جائے گی۔ کئی طبی ماہرین کے خیال میں اس کم تعداد کی وجہ کم ٹیسٹنگ ہے۔
Published: undefined
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پنجاب کے صدر ڈاکٹر سلمان حسیب چوہدری کا کہنا ہے کہ سندھ میں ٹیسٹ زیادہ ہو رہے ہیں، اس لئے وہاں کورونا کے مریضوں کی تعداد بھی زیادہ ہے، ''لیکن پنجاب میں یومیہ بمشکل پندرہ سو ٹیسٹ ہو رہے ہیں، جس کی وجہ سے تعداد کم لگ رہی ہیں۔ سندھ میں تین ہزار سے زیادہ ٹیسٹ ہو رہے ہیں۔ تو جب تک ہم ٹسیٹ نہیں بڑھائیں گے اور لوگوں کی بڑے پیمانے پر اسکریننگ نہیں کریں گے اس وقت تک یہ کہنا مناسب نہیں کہ ہمارے ہاں تعداد کم ہے۔‘‘
Published: undefined
ان کا کہنا تھا کہ جس تیزی سے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کورونا سے متاثر ہو رہے ہیں، اس سے تو یہ لگتا ہے کہ ملک میں بحران آئے گا، ''چار سو سے زائد ڈاکٹرز متاثر ہو چکے ہیں اور یہ وہ ہیں جنہوں نے اپنا ٹیسٹ خود کرایا ہے۔ اگر سب ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کا ٹیسٹ ہو تو یہ تعداد ہزاروں میں جائے گی اور ان بڑھتے ہوئے کسیز کی وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹرز کے پاس حفاظتی سامان نہیں ہے۔‘‘
Published: undefined
واضح رہے کہ حکومت پنجاب نے گزشتہ دنوں میں ٹیسٹ کم کر دیئے ہیں، جس کی وجہ سے سندھ کی نسبت وہاں کم کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔ حکومت کے اس اقدام نے پی پی پی کو چراغ پا کر دیا ہے۔ پارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ نے اپنے ایک حالیہ ٹوئٹ میں سوال کیا تھا کہ یہ ٹیسٹ کم کیوں کیے گئے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا تھا کہ کیا یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ سندھ میں کیسیز زیادہ ہیں اور پنجاب میں کم؟
Published: undefined
پاکستان میڈیکل ایسویسی ایشن کے سابق صدر ڈاکٹر ٹیپو سلطان کا بھی یہی نقطہ نظر ہے کہ بغیر ٹیسٹ کیے اصل تصویر نظر نہیں آئے گی، "وزیراعظم کا یہ کہنا شاید صحیح ہو کہ جتنی بری صورت حال ہم تصور کر رہے تھے، شاید صورت حال اتنی بری نہیں ہے۔ لوگ بازاروں اور مارکیٹوں میں گھوم رہے ہیں لیکن اتنی بڑی تعداد میں کلینیکل علامات نظر نہیں آ رہی۔ تاہم اس کے باوجود جب تک ہم ٹیسٹنگ نہیں بڑھائیں گے، اس وقت تک دعوی کرنا کوئی مناسب نہیں کیونکہ بہرحال کورونا کے کیسز بڑھ ہی رہے ہیں کم نہیں ہو رہے۔"
Published: undefined
پاکستان میں لاک ڈاون کے حوالے سے بھی تنازعہ چل رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وزیراعظم خود لاک ڈاون کے حق میں نہیں تھے۔ اس خیال کو اس وقت مزید تقویت ملی جب گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر لاک ڈاون کی مخالفت کی۔ سندھ میں لاک ڈاون کو کورونا وائرس روکنے کے لیے بہت اہم خیال کیا جا رہا ہے اور طبی ماہرین بھی کورونا کو روکنے کے لئے لاک ڈاون ضروری قرار دیتے ہیں۔ ینگ کنسلٹنٹس ایسویسی پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر اسفند یار خان بھی کم کورونا مریضوں کی تعداد کو کم ٹیسٹ سے جوڑتے ہیں، ''ہم صرف ان لوگوں کو ٹیسٹ کر رہے ہیں جن میں علامات ہیں۔ تو ہمارے ٹیسٹ کی شرح بہت کم ہے۔ اس کے علاوہ لاک ڈاون کی وجہ سے اس کی رفتار کم ہوئی ہے، جو لاک ڈاون اٹھنے کی وجہ سے بہت بڑھ سکتی ہے۔ میں اس بات کو نہیں مانتا کہ مجموعی طور پر حالات بہتر ہو رہے ہیں، ہمارے خیال میں یہ خراب ہو رہے ہیں کیونکہ مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اگر ڈاکٹر اسی طرح متاثر ہوتے رہے تو حالات بہت خراب ہو جائیں گے اور ملک میں طبی بحران آجائے گا۔‘‘
Published: undefined
کئی ماہرین کے خیال میں لاک ڈاون کے مسئلے پر صوبائی اور وفاقی حکومتوں میں اتفاق ہونا چاہیے لیکن اس مسئلے پر خلیج بڑھ رہی ہے۔ آج پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیر اعظم عمران خان پر الزام لگایا کہ وہ صوبوں کی کورونا مخالف کوششوں کو سبوثاژ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے بلوچستان کو کورونا سے نمٹنے کے لئے سہولیات فراہم نہیں کیں۔ پنجاب کو رائے ونڈ اجتماع کے حوالے سے مدد فراہم نہیں کی۔ انہوں نے وفاقی حکومت کی طرف سے وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ پر تنقید کو بھی بے جا قرار دیا۔ کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ مرکز اور صوبوں کی اس رسہ کشی میں کورونا کی روک تھام مشکل ہو سکتی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز