سابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ جو ہوا وہ متوقع تھا۔ پاکستانی سیاست میں ہر وہ عوامی نمائندہ جس کا قد فوج کے لئے خطرہ بن جائے اس کو یا تو موت کا یا پھر جلا وطنی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ محمد علی جناح کے بعد وہاں کے وزیر اعظم لیاقت علی خاں ایک عوامی تقریب میں گولی کا نشانہ بنے۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو پاکستان میں انتہائی مقبول ہوئے تو ان پر قتل کروانے کا الزام لگا اور سن 1979 میں جنرل ضیاء الحق نے ان کو پھانسی پر چڑھوا دیا۔ سن 2007 میں بھٹو کی بیٹی اور پاکستان کی مقبول لیڈر بے نظیر کو ایک عوامی جلسے سے نکلتے وقت گولی مار دی گئی۔ پھر نواز شریف کو دو بار ملک چھوڑ کر اپنی جان کی امان کے لئے جلا وطنی اختیار کرنی پڑی ۔ نواز شریف اب بھی لندن میں مقیم ہیں۔ اب عمران خان اور فوج میں ٹھن گئی ہے۔ پہلے تو عمران کے ہاتھوں سے اقتدار چلا گیا اور اب چند دن پہلے ان کے لانگ مارچ کے دوران ان کو گولی مار دی گئی اور وہ اب بھی استپال میں زیر علاج ہیں۔ الغرض جس عوامی لیڈر نے فوج کے خلاف منہ کھولا یا فوج کی مرضی کے خلاف کام کیا اس کاحشر برا ہوا۔
Published: undefined
اب سوال یہ ہے کہ ان حالات میں عمران خان کو جان کا نقصان ہوگا یا وہ بھی نواز شریف کی طرح جلا وطنی اختیار کریں گے ! اس سوال کا جواب تو کچھ عرصے کے بعد پاکستانی حالات دے ہی دیں گے لیکن اتنا ضرور ہے کہ فی الحال عمران اور فوج میں ٹھن گئی ہے۔ عمران اب جس حد تک کھل کر فوج کے خلاف سیاست کر رہے ہیں اس میں وہ پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ اگر ہٹے تو ان کی سیاست ہی زمیندوز ہو جائے گی۔ اسی طرح اب اگر فوج نے عمران کو کھلی چھوٹ دے دی تو پاکستانی فوج کا غلبہ خطرے میں آ جائے گا ۔ اس لئے یہ طے ہے کہ فوج عمران پر شکنجہ کسنے پر مجبور ہوگی۔ یعنی عمران اور فوج کے بیچ جھگڑا بڑھنا اب طے ہے۔ ظاہر ہے کہ ان حالات میں پاکستان میں اسٹریٹ سیاست یعنی فوج کے خلاف دھرنے و جلوس کا زور رہے گا ۔ چنانچہ پاکستانی سیاست مستحکم نہیں رہے گی اور ملک میں معاشی بحران بھی بڑھ جائے گا۔ یعنی پاکستان کے اب برے دن شروع ہو گئے ہیں۔
Published: undefined
کچھ تو یہ ہے کہ محمد علی جناح کا پاکستان ان کی وفات کے بعد سے آئے دن کسی نا کسی قسم کے بحران کا شکار رہتا ہے۔ کبھی فوج اور سیاستدانوں کے بیچ رسہ کشی تو کبھی ملک مالی کنگالی کا شکار۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں کو ایک ساتھ غلامی سے نجات ملی تھی۔ ہندوستان تمام مسائل کا شکار رہنے کے باوجود اب دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت ہے۔ ملک میں جمہوریت کی جڑیں بے حد مضبوط ہیں اور ہندوستان عالمی امور میں ایک بڑی آواز ہے۔ اس کے برخلاف 75 سالوں کی آزادی کے بعد بھی پاکستان میں سیاسی استحکام کا فقدان ہے اور وہاں معاشی ترقی کے آثار بھی نظر نہیں آتے ۔ دنیا بھر کے زیدہ تر اسلامی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی نہ تو جمہوری جڑیں پنپ رہی ہیں اوروہاں کا نظام پوری طرح فوج کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے ، جو کسی جمہوری قائد کو کامیاب نہیں ہونے دیتی ۔
Published: undefined
پاکستان میں جمہوری لیڈران اور فوج کے درمیان جو رسہ کشی کی روایت رہی ہے وہی رستہ کشی اب عمران اور فوج کے درمیان چل رہی ہے ۔ عمران کو گولی لگنے کے بعد فوج اور عمران کے بیچ موجود کھائی بڑھتی جائے گی۔ پاکستان کی بدنصیبی یہ ہے کہ موجودہ صورت حال میں عمران کے علاوہ کوئی ایسا لیڈر نہیں ہے کہ جو ان کا نعم البدل ثابت ہو سکے۔ بھٹوخاندان کا دور ختم ہوا۔ بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری اور بیٹے بلاول بھٹو کی کوئی عوامی ساکھ نہیں بچی ہے۔ نواز شریف لندن میں پڑے ہیں۔ ان کے بھائی شہباز شریف کو پاکستان کیا پنجاب میں بھی کوئی نہیں پوچھتا ۔ ادھر، عمران کی مقبولیت عوام میں بڑھتی جا رہی ہے ۔ فوج عمران کو لیڈر تسلیم کرے اور چند ماہ میں انتخاب کروا کر اقتدار عمران کے حوالہ کر دے یہ اس کے لئے اب ممکن نظر نہیں آ رہا ۔ عمران اور فوج کے بیچ جس طرح کھائی پیدا ہو چکی ہے اس کے بعد فوج پیچھے نہیں ہٹ سکتی ۔ ان حالات میں جلد ہی پاکستان کی سڑکوں پر فوج کے خلاف بغاوت پھوٹ پڑے گی اور شہباز شریف حد سے زیادہ غیر مقبول ہو جائیں گے۔ ان حالات میں امن و امان بحال کرنے کے لئے فوج کے پاس مارشل لا نافذ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچے گا۔ لب و لباب یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے بعد جس طرح جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا لگا کر ملک کو فوج کے حوالہ کر دیا تھا اسی طرح اندیشہ ہے کہ جنرل باجوہ کو بھی پاکستان میں مارشل لا لاگو کرنا پڑ سکتا ہے!
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined