توہین مذہب کے الزام میں قریب 10 برس جیل میں گزارنے والی آسیہ بی بی کو گزشتہ برس اکتوبر2018 میں پاکستانی سپریم کورٹ نے اس الزام سے بری کرتے ہوئے اسے رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف نہ صرف ملک بھر میں شدید مظاہرے کیے گئے بلکہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل بھی دائر کر دی گئی۔ تاہم رواں برس جنوری 2019 میں سپریم کورٹ نے اس اپیل کو خارج کرتے ہوئے اپنا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔
Published: undefined
چار بچوں کی والدہ آسیہ بی بی کو جون 2009ء میں اُس وقت حراست میں لے لیا گیا تھا جب اس کی کچھ ہمسایہ خواتین نے اس پر پیغمبر اسلام کی توہین کا الزام عائد کیا۔ اس کے ایک برس بعد ایک ماتحت عدالت نے آسیہ بی بی کو اسی الزام میں سزائے موت سنا دی تھی۔
Published: undefined
سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کے بعد آسیہ بی بی کو آزادی مل جانا چاہیے تھی۔ وہ جیل میں بھی نہیں ہے کیونکہ اس کے خلاف کوئی اور مقدمہ موجود نہیں۔ اس کے خلاف توہین مذہب کے الزامات غلط ثابت ہو چکے ہیں۔ کیا اسے کینیڈا چلے جانا چاہیے جہاں اطلاعات کے مطابق اس کی بیٹیاں موجود ہیں۔ ظاہر ہے آسیہ بی بی کو اب یہ حق حاصل ہے۔
Published: undefined
سپریم کورٹ کی طرف سے آسیہ بی بی کی رہائی کے حتمی فیصلے کو قریب تین ماہ کا وقت گزر جانے کے باوجود ابھی تک واضح نہیں کہ وہ ہے کہاں۔ اطلاعات کے مطابق اسے کسی نامعلوم مقام پر ’حفاظتی تحویل‘ میں رکھا گیا ہے۔ پاکستان کے انسانی حقوق کے گروپوں اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ بات پریشان کُن ہے کہ آسیہ بی بی قانونی فتح کے باوجود ابھی تک ’قیدی‘ ہی ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
’’شدت پسند ابھی بھی آسیہ بی بی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں‘‘، یہ کہنا ہے عبید رابرٹ کا جو آسیہ بی بی کے شوہر عاشق مسیح کے دوست ہیں۔ رابرٹ ایک پادری ہیں اور وہ عدالتی کارروائی کے دوران عاشق مسیح کے ساتھ موجود ہوتے تھے۔ رابرٹ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’میرے خیال ہے کہ وہ (آسیہ بی بی) ابھی تک پاکستان میں ہی ہے اور ملک سے باہر نہیں گئی۔‘‘ رابرٹ کا کہنا تھا کہ یہ آسیہ بی بی کی سکیورٹی کے حوالے سے اچھی بات نہیں۔
Published: undefined
آسیہ بی بی کی حفاظت کے حوالے سے پاکستان کی مسیحی برادری میں بھی تحفظات پائے جاتے ہیں۔ ’مائنورٹیز الائنس پاکستان‘ آرگنائزیشن کے وائس چیئر مین شمون الفریڈ گِل کے مطابق جب تک آسیہ بی بی پاکستان میں موجود رہے گی اس کی جان کو خطرہ لاحق رہے گا۔
Published: undefined
گِل نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ہم نے اپنے دوستوں اور سول سوسائٹی سے درخواست کی ہے کہ وہ بین الاقوامی اداروں کے علاوہ پاکستانی حکام سے بھی یہ اپیل کریں کہ آسیہ بی بی کی پاکستان سے محفوظ رخصتی کو یقینی بنایا جائے۔
Published: undefined
Published: undefined
بعض پاکستانیوں کا خیال ہے کہ حکومت نے عدالتی فیصلے کے بعد خاموشی سے آسیہ بی بی کو ملک چھوڑنے کی اجازت دے دی تھی۔ ان لوگوں کے مطابق حکام یہ بات عام نہیں کرنا چاہتے کیونکہ اس طرح انہیں مذہبی شدت پسندوں کی طرف سے رد عمل کا خدشہ ہے۔ تاہم دوسری طرف سے اس معاملے پر حکومتی خاموش کئی افواہوں اور خدشات کو جنم دے رہی ہے۔
Published: undefined
ایک حکومتی وزیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’مجھے نہیں معلوم کہ آسیہ بی بی ملک چھوڑ چکی ہے یا نہیں۔‘‘
Published: undefined
آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک کا بھی جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے فوری بعد سکیورٹی خدشات کے سبب ہالینڈ چلے گئے تھے، یہی کہنا ہے کہ انہیں بھی آسیہ بی بی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ’’اپیل کورٹ کی طرف رہائی کے بعد سے میں آسیہ بی بی یا اس کے شوہر کے ساتھ رابطے میں نہیں ہوں۔ لہٰذا مجھے نہیں معلوم کہ وہ پاکستان میں ہے یا پاکستان سے باہر جا چکی ہے۔ میں اس معاملے کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ مجھے اس بارے میں نہ تو کسی نے رابطہ کیا ہے اور نہ ہی کوئی معلومات دی ہے۔‘‘
Published: undefined
پاکستانی حکومت کے ان اداروں نے جن کا کام ملک سے باہر جانے والے افراد کے ناموں کا اعداد شمار رکھنا ہوتا ہے، ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کی فہرست پر آسیہ بی بی کا نام نہیں ہے۔
Published: undefined
دوسری طرف شان تاثیر کا، جو پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کے بیٹے ہیں، کہنا ہے کہ وہ مذہبی رہنما نہیں بلکہ ’کچھ اور لوگ‘ ہیں جو نہیں چاہتے کہ آسیہ بی بی ملک سے باہر جائے۔ خیال رہے کہ سلمان تاثیر کو توہین مذہب کے الزام میں انہی کے ہی گارڈ نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔
Published: undefined
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے شان تاثیر کا کہنا تھا، ’’میرا خیال ہے کہ پاکستان کے طاقتور افراد پاکستان کے وقار کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں خطرہ ہے کہ آسیہ بی بی اگر ملک سے باہر جاتی ہے تو وہ پاکستان کے وقار کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ یہ مکمل طور پر نا انصافی ہے۔‘‘
Published: undefined
شان تاثیر نے آسیہ بی بی کی ملک سے روانگی میں تاخیر کو ’ظالمانہ اقدام‘ قرار دیا ہے ’’حکومت کے پاس اس بات کا کوئی اختیار نہیں کہ وہ اس کی آزادی پر قدغن لگائیں۔ حکومت اپنے اختیار سے تجاوز کر رہی ہے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined