اکتیس اکتوبر کے دن بھارتی حکومت جموں کشمیر اور لداخ کو دو مختلف یونین علاقوں میں تقسیم کر کے ان پر اپنی گرفت مزید مضبوط بنا لے گی اور پاکستان سمیت دنیا دیکھتی ہی رہ جائے گی۔
Published: undefined
یوں اس سال پانچ اگست کو نریندر مودی کی حکومت کی طرف سے جموں کشمیر سے متعلق جس متنازعہ آئینی عمل کا آغاز کیا گیا تھا، وہ جمعرات کو باقاعدہ طور پر مکمل ہو جائے گا۔
Published: undefined
جموں کشمیر میں گجرات کے ریٹائرڈ بیوروکریٹ جی سی مُرمو گورنر بن جائیں گے۔ لداخ میں سول سروس کے ایک اور سابق افسر رادھا کرشنا ماتھُر مرکز کے نمائندے کے طور پر تعینات ہو جائیں گے۔
Published: undefined
ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے یہ ایک سنگ میل ہے کہ جو کام ستر برسوں میں کوئی نہ کر سکا، وہ نریندر مودی نے کر دکھایا۔ جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنا بی جے پی کا وہ اہم انتخابی وعدہ تھا، جو اس نے پورا کر دیا۔
Published: undefined
پاکستان کے پالیسی ساز عسکری ادارے جانتے تھے کہ مودی ایسا بھی کر سکتے تھے لیکن ان کی زیادہ تر توجہ داخلی سیاست میں اکھاڑ پچھاڑ پر ہی مرکوز رہی۔ کوئی جوابی حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے پچھلے تین ماہ میں پاکستان بوکھلاہٹ کا شکار نظر آیا۔
Published: undefined
اقوام متحد میں مغربی طاقتوں اور مسلم اُمہ نے اپنے اپنے معاشی مفادات کو ہی مقدم رکھا۔ بی جے پی نے کہا کہ اچھا ہوا کہ کشمیر پر عالمی سرد مہری نے پاکستان کو اس کی اوقات یاد دلا دی۔
Published: undefined
پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بھارت سے جنگ نہیں لڑ سکتا۔ ہاں عالمی توجہ مبذول کرانے کے لیے ایٹمی جنگ کی دھمکیاں ضرور دے سکتا ہے۔ اپنی معاشی کمزوری اور ایف اے ٹی ایف کی اپنے سر پر لٹکتی تلوار کے باعث پاکستان چاہے بھی تو فی الحال کشمیر میں دوبارہ جہاد کو فروغ نہیں دے سکتا۔
Published: undefined
وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو یہ احساس جلد ہوگیا کہ اس کے پاس دراصل کشمیر پر بیان بازی اور جلسے جلوسوں کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔ اسی لیے عمران خان کو واضح کرنا پڑا کہ اگر کسی نے کشمیریوں کی مدد کے لیے لائن آف کنٹرول پار کرنے کی کوشش کی، تو وہ کشمیریوں اور پاکستان دونوں کا دشمن ہو گا۔
Published: undefined
پچھلے تین ماہ میں کشمیریوں پر جو گزری، اس کی عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے کھل کی مذمت کی اور سینکڑوں رپورٹیں اور بیانات شائع کیے۔ وادی میں عوامی نقل و حرکت پر پابندیاں ایسی کہ اسکول، کالج، بازار، ہوٹل بند ہوگئے یا خالی رہے۔ انٹرنیٹ، موبائل فون سروسز اور میڈیا پر بلیک آؤٹ رہا۔ اس دوران کشمیر کی سیاسی قیادت کو نظربند اور خاموش کر دیا گیا۔
Published: undefined
نریندر مودی مزید کب تک کشمیر کو جیل بنا کر رکھیں گے، یہ واضح نہیں ہے۔ فی الحال ان پر وادی میں معمولات زندگی بحال کرنے کا کوئی خاص دباؤ نہیں ہے اور نہ ہی وہ جلدی میں ہیں۔ ویسے بھی کشمیر کو ہندتوا کے سانچے میں ڈھالنے کا پروجیکٹ لمبا ہے۔ زمینی حقائق بدلنے کے لیے باہر سے لوگوں کو لا کر بسانے میں بھی وقت لگے گا۔ مزاحمت بھی ہوگی، رکاوٹیں بھی سامنے آ سکتی ہیں۔ لیکن پھر بھی طریقہ وہی، جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں عوام کو اسرائیل سے بھی تو کئی عشروں سے یہی شکایت ہے۔
Published: undefined
جہاد اور جنگوں میں جھونکنے والوں نے پاکستان کو اب جس مقام پر لا کھڑا کیا ہے، وہاں سے کم از کم دو راستے نکلتے ہیں۔
Published: undefined
پہلا پرانی اور ناکام روش پر قائم رہنے کا، جس نے پاکستان کو عسکریت پسندوں کا ملک بنا دیا، پڑوسیوں کے خلاف نبرد آزما رکھا اور ملک کو معاشی اور سیاسی طور پر کھوکھلا کر دیا۔
Published: undefined
دوسرا راستہ اصلاح کا ہے، جوپاکستان کو ایک نیشنل سکیورٹی اسٹیٹ کے بجائے فلاحی ریاست کی طرف لے کر جا سکتا ہے۔ پڑوسیوں کے ساتھ تنازعات مسلح کارروائیوں کے بجائے بات چیت سے بھی حل ہو سکتے ہیں۔ سرحدوں پر امن ہو جائے تو دیگر ملکوں کی طرح پاکستان بھی تجارت اور کاروبار کا مرکز بن سکتا ہے۔
Published: undefined
آج کی دنیا سے ملنے والا تلخ سبق یہی ہے کہ بندوقیں اور ٹینک ایک حد تک ہی کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن معاشی طور پر کمزور اور مقروض ممالک کی دنیا میں کوئی عزت نہیں کرتا۔ پاکستان آج اگر خود کو داخلی طور پر ٹھیک کر لے، اور آغاز اپنے شہریوں کو ان کے بنیادی حقوق دینے سے ہو، تو پھر شاید پاکستان کشمیریوں کے بھی کچھ کام آ سکے گا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز