یہ کوئی مارچ کی خوشگوار صبح تھی، سردی کا موسم تھک کر چور ہو چکا تھا گرمی نے ابھی آنکھیں نہ کھولیں تھیں۔ ہر لمحے نئی کونپلیں پھوٹ رہیں تھیں، درختوں پہ نئے پتوں کا رنگ یقین سے بھی زیادہ قوی تھا۔ سرسوں کے پھولوں کی بہتات پہ تتلیوں کی وارفتگی دیدنی تھی۔ ہواؤں میں بھینی بھینی خوشبو تھی اور فضاؤں میں ہلکا ہلکا خمار۔ سورج اور بادل سارا دن آنکھ مچولی کھیلتے تھے۔ غلے کی ایسی فراوانی تھی کہ پرندے دانہ دنکا ڈھونڈنے کی بجائے مستیاں کر رہے تھے۔ یہ مرشد کے بچپن کی ساتویں بہار تھی۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا، لیکن ایک سراسیمگی بھی تھی۔ سب مطمئن تھے لیکن کہیں چھپا ہوا تھوڑا انتظار بھی تھا۔ سب خوش تھے لیکن سب کی نظریں سوالی تھیں۔ ہر سو ٹھہراؤ تھا لیکن کہیں کچھ عجلت کا قیاس تھوڑی انگڑائی سی لے رہا تھا۔ آخر مرشد کی دادی اماں بول ہی پڑیں۔ "ارے بھئی کوئی بلائے گا بانکے نائی کو ہمارے سر چڑھے فرنگی کو مسلمان ہی کر دے، دھینگڑا ہو رہا ہے۔"
عجیب بھلا زمانہ تھا کہ ترویج اسلام میں مولویوں سے زیادہ حجام کا کردار ہوا کرتا تھا۔ مرشد فرماتے ہیں کہ بے شک حجاموں نے اربوں کھربوں نوخیز ابناء آدم دائرہ اسلام میں داخل کئےہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی محض اس امر کی بنیاد پر جنت میں نہ جاوے گا کیونکہ دھوکے سے کیے گئے کام کا اسلام میں کوئی اجر و صلہ نہیں۔
خیر مرشد کی دادی کا حکم ملتے ہی ادھیڑ عمر بانکے میاں آ دھمکے۔ بانکے نائی کا اصلی نام عبدالحق ولد چندرالدین تھا۔ پیدائشی بھینگے تھے۔ بھینگا پن بھی قریب کوئی نوے کے زاویے کا تھا۔ بڑوں نے بچپن میں ہی بانکا نائی نام رکھ دیا تھا۔ اس لئے وزارت داخلہ کے علاوہ کبھی کسی کو معلوم نہ تھا کہ انکا نام عبدالحق ہے۔ چونکہ ہر وقت بغل میں استرے اور قینچی جیسے اوزار ہوتے تو کسی کو متبادل نام رکھنے کی جسارت نہ ہوئی۔ بچپن میں صرف بچے ڈرتے تھے بانکا نائی جوان ہوا تو بڑے بھی ڈرنے لگے۔ اس طرح بانکا نائی بانکے میاں بن گیا۔ مرشد کی دادی تو استرے قینچیوں سے ڈرنے والی خاتون نہ تھیں اس لئے بانکے میاں ہی ان سے ڈرتا تھا۔ بولا "بڑی بی خیر سے یاد کیا ناچیز کو۔ ’’چندرو کے نکھٹو وہ سامنے آم کے پیڑ میں دیکھو ہمارے لونڈے ابھی تک فرنگی ہے، اسی جمعہ کو سویرے سویرے ہی آ جانا"۔ بانکے نائی نے دائیں جانب دیکھا تو اپنے بائیں جانب آم کے پیڑمیں مرشد گھٹلیاں گنتے نظر آئے۔ مرشد اس فیصلہ کن روز بانکے میاں کے ارادے بھانپ چکے تھے۔
دو ہی دن بعد جمعہ آگیا۔ شمشیر بکف اور دیگر جنگی و جراحی سامان سے لیس بانکے میاں بھی کسی پرانی یونانی فلم کے ولن کی طرح صبح سویرے وارد ہو گئے۔ مرشد اپنی خواب گاہ سے غائب ملے تو ڈھونڈورا پٹ گیا۔ اس سے پہلے کہ کسی پے شک کیا جاتا پتا چلا کہ گھر کے ساتھ والے کھیت میں کنویں کے باغ میں کھٹیوں (املی) کے ایک بڑے سے پیڑ کی چھوٹی سی شاخ پہ بیٹھے کھٹیاں چوس رہے تھے۔
Published: undefined
جیسے ہی مرشد کو چمڑے کے بنے کالے بستے والا بانکا نظر آیا تو مرشد نے دل ہی دل میں کہا، وڑ گئے بھئ"۔ کھٹیوں کے پودے کی شاخیں اتنی باریک اور گہری ہوتیں ہیں کہ مرشد کو برخلاف مرضی زمین پہ نہیں لایا جا سکتا تھا۔ سو رائج الوقت طرائق ِحرص و طمع کے مد نظر مرشد کو پیسوں کا جھانسا دیا گیا۔ نہ بات بنی تو پاس کھڑے کبوتر باز تایا زاد نے اپنے کبوتر حبہ کرنے کا عندیا دے دیا۔ کسی نے ٹریکٹر پے بٹھا کے شہر کی سیر کی آفر کروائی تو کوئی گھر سے پیلے لڈو نکال لایا۔ الغرض ہر رشتہ دار نے حسب مرتبہ اور استطاعت اپنے خلوص کو آزمائش میں ڈالا۔ جب مرشد کسی طور نیچے اترنے پے راضی نہ ہوئے تو بانکے میاں کی کابینہ نے گھر کا راستہ لیا البتہ ایک دو جاسوس موقع تاڑنے کے لئے چھوڑ دیئے۔ ابھی آدھا گھنٹہ ہی گزرا تھا، مرشد کی جیبیں اور من کھٹیوں سے بھر چکا تھا۔ بڑی احتیاط سے نیچے اترے۔ گھر سے کچھ فاصلے پہ واقع ٹیوب ویل منزل مقصود تھا۔ سوچا تھا ٹھنڈے پانی کی دھاروں کے نیچے کھٹیوں کا مزہ دوبالا کریں گے۔ اسی دھن میں چہرے پہ ہلکا سا تبسم پھیل ہی رہا تھا کہ جیب سے اچھل کر ساری کھٹیاں زمین پہ پھیل گئیں، مرشدکو دشمن نے بڑی ہوشیاری سے گرفتار کرلیا تھا۔ چونکہ گرفتار کندگان میں قریب درجن بھر لوگ تھے، مرشد کے پاس اداکاری کے علاوہ کوئی ہتکنڈہ نہ تھا۔ وہ بھی کام نہ آیا۔ بس پھر آن کی آن دالان میں تختہ دار سج گیا، انسانی ہتھکڑیوں میں قید رہبر فردا کو قاضی وقت بانکے میاں کے سامنے لایا گیا، تشریف فرماتے ہی بانکے میاں نے آسمان کی طرف اشارہ کر کے بڑے اعتقاد کے ساتھ کہا کہ وہ دیکھو جنگلی کبوتر، مرشد کو کبوتر تو نظر نہ آیا البتہ طوطے سے ضرور اڑتے دکھائی دیئے۔ بقول شاعر
Published: undefined
آج تک بھولی نہیں اپنی مسلمانی مجھے
یاد کروادی تھی جب اسلام نے نانی مجھے
Published: undefined
جس طرح سات سالہ مرشد کو ایک بانکے میاں دائرہ اسلام میں داخل کرنے آئے عین اسی طرح اس ستر سالہ وطن عزیز کی تاریخ بھی بھانت بھانت کے بانکوں، کانوں اور اندھوں سے مزین ہے، جنکا اسلام سے اتنا ہی ناطہ یا تعلق تھا جتنا مرشد کے بانکے میاں کا۔ یہ بانکے کبھی سڑکوں اور چوراہوں پہ بیٹھے، کبھی باوردی اقتدار کی مسند پہ براجمان ہو ئے تو کبھی مدارس اور مسجدوں کے منبروں پے جا چڑھے۔ مرشد کے بانکے میاں میں لاکھ برائیاں ہونگی مگر وطن عزیز کے بانکوں سے ایک فرق بہر طور رہا۔ وہ یہ کہ مرشد کے بانکے میاں نے آج تک غلطی سے بھی کسی مسلمان کو دائرہ اسلام سے باہر نہیں گھسیٹا۔
(مضمون نگار پاکستان میں ڈپٹی کمشنر اِنکم ٹیکس سیلز ٹیکس کے عہدے پر فائز ہیں، ای میل : akbarmayo@gmail.com)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined