پاکستان کے سپریم کورٹ نے جمعرات کے روز ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے ایک مجرم کی بریت کی اپیل کو مسترد کر دیا، جس پر ایک عورت پر تیزاب پھینکنے کا جرم ثابت ہو چکا تھا۔ مجرم کے وکیل نے استدعا کی تھی کہ تیزاب گردی کی شکار ہونے والی خاتون اور اس کے گھر والوں نے مجرم کو معاف کر دیا ہے لہذا اس کی بریت کی درخواست کو قبول کیا جائے۔ لیکن چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ قانون نے تیزاب گردی کو قتل سے بھی بڑا جرم قرار دیا ہے اور مجرم کو کسی بھی صورت معاف نہیں کیا جا سکتا۔
Published: 14 Jul 2019, 7:10 AM IST
واضح رہے کہ پاکستان میں کئی مقدمات میں عدالت سے باہر ہی صلح کر لی جاتی ہے۔ ناقدین کے خیال میں اس طرح کی صلح میں مجرموں کے رشتہ دار یا با اثر افراد ظلم کے شکار افراد کو دھونس، دھمکی یا پیسوں کی لالچ دے کر مقدمات واپس لینے کا کہتے ہیں، جس کی وجہ سے مجرم چھوٹ جاتے ہیں۔ تیزاب گردی کے شکار افراد کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے بریت کا راستہ بند ہو گیا ہے اور قانون کی گرفت ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے گرد مضبوط ہوئی ہے۔
Published: 14 Jul 2019, 7:10 AM IST
لودھراں سے تعلق رکھنے والی تیس سالہ نذیراں بی بی کا کہنا ہے کہ ان کے دوسرے شوہر، جو رشتے میں ان کے دیور لگتے ہیں، نے انہیں اس لئے چھوڑ دیا تھا کہ نذیراں نے اپنے اوپر تیزاب پھینکنے والے کو معاف کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، '' عدالت نے بھی وہ ہی کیا جو میں برسوں سے چاہتی تھی۔ اس سے لوگوں میں قانون کا خوف پیدا ہو گا اور تیزاب گردی کی روک تھام میں مدد ملے گی۔‘‘
Published: 14 Jul 2019, 7:10 AM IST
نذیراں بی بی پر ان کی سوتن کے ایک رشتہ دار نے سال دو ہزار آٹھ کی ایک رات اس وقت تیزاب پھینکا، جب انہوں نے اپنے شوہر کی وفات کے بعد اس کے چھوٹے بھائی سے شادی کی۔ چھوٹے بھائی کی بیوی نے اپنے ایک رشتے دار کے ساتھ مل کر ان پر تیزاب پھینکا۔ بعد میں ان کے شوہر نے دباو ڈالا کہ وہ مجرم کو معاف کر دیں لیکن نذیراں نے معاف کرنے سے انکار کر دیا۔ جس کی بنا پر ان کے دوسرے شوہر نے انہیں چھوڑ دیا۔ نذیراں کی قانونی معاونت ایسڈ سروائیر فاؤنڈیشن پاکستان نے کی، جو اب ان کی مالی مدد بھی کر رہی ہے۔
Published: 14 Jul 2019, 7:10 AM IST
پاکستان میں تیزاب گردی کے شکار صرف مرد، عورتیں یا بچے ہی نہیں ہیں بلکہ معاشرے کے سب سے پسے ہوئے طبقے یعنی خواجہ سراؤں کی بھی ایک بڑی تعداد اس بھیانک جرم کا شکار رہی ہے، جس سے ان کے مصائب میں اور اضافہ ہو گیا ہے۔ تاہم اس ظلم کی شکار نایاب علی، جو ایک خواجہ سرا ہیں، عدالت کے اس فیصلے پر خوش ہیں۔ نایاب علی نے اس فیصلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ''میں بہت خوش ہوں کہ عدالت نے اتنا اچھا فیصلہ دیا۔ اکثر مجرم صلح صفائی کا بہانہ کر کے بری ہو جاتے تھے۔ اب عدالت نے اس کے دروازے بند کر دیے ہیں۔ میرے خیال میں اسی طرح کے عدالتی فیصلے بچوں سے زیادتی اور دوسرے اہم مقدمات میں بھی ہونے چاہیئیں اور یہ صلح صفائی والا دروازہ بالکل بند ہونا چاہیے۔‘‘
Published: 14 Jul 2019, 7:10 AM IST
لیکن کئی ناقدین کا خیال ہے کہ صرف فیصلوں سے ہی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے احسن رضا کا خیال ہے کہ اس طرح کے واقعات جنوبی پنجاب میں بہت زیادہ ہیں۔ ''اس علاقے میں جاگیردار بھی بہت طاقت ور ہیں اور جاگیردارانہ سماج میں عورت کو پیر کی جوتی سمجھا جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نظام کو کمزور کیا جائے۔‘‘
Published: 14 Jul 2019, 7:10 AM IST
ان کا کہنا تھا کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا تعلق بھی جنوبی پنجاب سے ہے اور وہ اس ظلم کو بہت اچھے انداز میں سمجھتے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے یہ جرات مندانہ فیصلہ کیا ہے، ''اس فیصلے سے نہ صرف ظلم کے شکار افراد کو انصاف ملے گا بلکہ ان با اثر افراد کی طاقت پر بھی ضرب لگے گی جو جرگوں کے ذریعے مجرمان کو معافیاں دلواتے ہیں۔‘‘
Published: 14 Jul 2019, 7:10 AM IST
پاکستان میں تیزاب گردی کے خلاف کئی دہائیوں تک موثر قوانین موجود نہیں تھے، جس کی وجہ سے ان واقعات کی روک تھام مشکل ہوگئی تھی۔ دو ہزار دس سے دو ہزار چودہ کے درمیان اس جرم میں بہت تیزی نظر آئی۔ تاہم دو ہزار چودہ میں منظور کیے جانے والے ایک نئے قانون کے بعد ایسے واقعات میں کوئی پچاس فیصد کمی ہوئی ہے۔ ایسڈ سروائیرز فاؤنڈیشن کی کوآرڈینیٹر زینب قیصرانی کا کہنا ہے کہ ایک اور بل قومی اسمبلی میں منظور ہونے کا منتظر ہے اور اگر یہ پاس ہو جائے تو ایسے واقعات کی روک تھام بہت حد تک ممکن ہے، ''ہماری کوششوں سے دو ہزار سترہ میں قومی اسمبلی نے ایک جامع بل پاس کیا تھا لیکن پھر حکومت کی تبدیلی کی وجہ سے وہ سینیٹ میں پاس نہیں ہو سکا۔ اب ہم کوشش کر رہے ہیں کہ حکومت اس بل کو پاس کرائے تاکہ اس طرح کے واقعات کی مکمل طور پر روک تھام ہو سکے۔‘‘
Published: 14 Jul 2019, 7:10 AM IST
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے واقعات لودھراں، ملتان، لیہ، مظفر گڑھ، رحیم یار خان اور راجن پور میں بہت زیادہ ہوئے ہیں، ''ایک بل وفاقی سطح پر پہلے ہی موجود ہے ۔ میرے خیال میں صوبوں کو بھی ایسے ہی بل پر فوری طور پر کام کرنا چاہیے تاکہ ہمیں اس ظلم سے نجات مل سکے۔‘‘
Published: 14 Jul 2019, 7:10 AM IST
ایک اندازے کے مطابق تیزاب گردی کے مجموعی واقعات میں سے پچاسی فیصد پنجاب میں رونما ہوئے ہیں۔ ایسے واقعات میں مجموعی کمی کے باوجود ایک نیا رجحان یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بچوں پر اس طرح کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ دو ہزار تیرہ سے دو ہزار سولہ کے درمیان بچوں کے خلاف تیزاب گردی کے واقعات میں چھ فیصد سے زائد اضافہ ہوا۔
Published: 14 Jul 2019, 7:10 AM IST
اس ظلم کے شکار افراد کی معاونت کرنے والے سماجی کارکن مرید عباس خان جتوئی کا کہنا ہے حکومت کی طرف سے اس ظلم کے شکار افراد کی مالی معاونت بہت ضروری ہے، ''ہماری این جی او نہ صرف ایسے افراد کی مالی و قانونی مدد کرتی ہے بلکہ ان کو ہنر سکھا کر ان کی کفالت کے بھی ذرائع پیدا کرتی ہے۔ نو سو سے زیادہ متاثرین کی مدد کی جا رہی ہے لیکن حکومتی سطح پر بھی ایسے افراد کی مدد بہت ضروری ہے۔‘‘
Published: 14 Jul 2019, 7:10 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 14 Jul 2019, 7:10 AM IST