عراق میں امریکی ناکامیوں اور اب افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کا اہم سبب بنے پراسرار سفارت کار خلیل زاد کو لے کر سوال اٹھ رہے ہیں۔ افغان نژاد کے اہم امریکی سفارت کار خلیل زاد طویل مدت سے واشنگٹن کے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں ان کے کردار کے لیے ایک متنازعہ شخص رہے ہیں۔
ٹی آر ٹی ورلڈ نے بتایا کہ انھوں نے طالبان کے ساتھ واشنگٹن کے مذاکرہ کی بھی قیادت کی، جنھیں کئی لوگ افغانستان میں پشتون اکثریت والے گروپ کی بجلی کی رفتار سے جیت کے اہم سفیر کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ امریکہ کے ذریعہ تربیت یافتہ افغان فوج کے خلاف طالبان کی حیرت انگیز شکل میں فوری جیت کے بعد کئی سرکاری آرگنائزر اور ماہر افغان گروپ کی اقتدار میں واپسی میں واشنگٹن کے کردار، خصوصاً خلیل زاد کے کردار پر قیاس آرائیاں کر رہے ہیں۔
Published: undefined
کچھ دیگر ماہرین مانتے ہیں کہ خلیل زاد نے اپنے نجی اور خاندانی مفاد کو فروغ دینے کے لیے ایک ’خصوصی سیاسی ایجنڈا‘ اختیار کیا۔ اٹلانٹک کونسل کے ایک سینئر فیلو کمال عالم کہتے ہیں ’’افغانستان میں پھیلی انارکی اور تباہی کے لیے ذمہ دار ایک شخص خلیل زاد ہیں۔ مبینہ مالی بدعنوانی کے لیے ان کی جانچ ہونی چاہیے۔‘‘
2014 میں خلیل زاد سے متعلق مالیات ایک آسٹریائی جانچ کے ماتحت تھا، جس نے امریکی محکمہ انصاف کی جانکاری کی بنیاد پر یوروپی ملک میں ان کی بیوی کے اکاؤنٹس کو سیل کر دیا تھا، کیونکہ انھیں عراق اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں کمرشیل سرگرمیوں سے متعلق منی لانڈرنگ کا شبہ تھا۔ عالم نے ٹی آر ٹی ورلڈ کو بتایا کہ ’’یہ آدمی افغانستان کا صدر بننا چاہتا تھا۔ وہ افغانستان کا صدر بننے کے لیے دوڑا۔ کوئی اسے پسند نہیں کرتا۔ ہر کوئی اس سے نفرت کرتا ہے۔‘‘
Published: undefined
ایک ترکی ذرائع، جو خلیل زاد کے بہت قریب ہے، نے اپنی شناخت خفیہ رکھنے کی شرط پر ان کے بارے میں بات کی اور کہا کہ انھیں کسی ایسے شخص کے بارے میں عوامی طور سے ’منفی نظریہ‘ ظاہر کرنا ہوگا، جسے وہ بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ افغانستان میں امریکی سفارت کار کی شکل میں ان کی تقرری سے پہلے افغانستان کے ان کے کچھ ملکی باشندوں نے ان پر ’ذاتی قوم پرستی سے متاثر رویہ‘ کا الزام لگاتے ہوئے ایک عرضی پر دستخط کیے تھے، جو امریکی حملہ کے بعد پشتون طبقہ کی بالادستی کے لیے ان کی مبینہ حمایت کا براہ راست ضمن تھا۔
عالم نے اس بات کی طرف توجہ مرکوز کرائی کہ خلیل زاد کو اپنے آبائی ملک، افغانستان میں اپنی سیاسی خواہشات کو واضح کرنے کے بعد کبھی بھی امریکہ اور طالبان کے درمیان اعلیٰ ثالثی کی حالت میں نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مبینہ طور پر خلیل زاد 2009 کے افغان انتخابات میں چیلنج دینا چاہتے تھے، لیکن اپنی امیدواری داخل کرنے کی مدت کار سے چوک گئے۔ عالم نے سوال پوچھے ہوئے کہا کہ ’’ایک امریکی افسر کیسے غیر جانبدار ہو سکتا ہے، جب وہ افغانستان نامی دوسرے ملک کے صدر عہدہ کے لیے دوڑ لگا رہا ہو؟‘‘ عالم کہتے ہیں کہ حالانکہ وہ ’افغانستان کے عظیم کھیل‘ یا ’دی گریٹ گیم آف افغانستان‘ کے سرگرم شراکت دار رہے ہیں، لیکن ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے جس سے وہ آزادانہ صلاح کار کا کام کر سکیں۔ سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ انتظامیہ کے ذریعہ امریکی وزیر خارجہ کے عہدہ کے لیے بھی خلیل زاد کے نام پر غور کیا گیا تھا۔
Published: undefined
ایک پاکستانی رائٹر احمد راشد نے بھی ’برطانوی وائسرائے کی طرح کام کرنے‘ کے لیے ان کی تنقید کی۔ سوویت اور امریکیوں سے پہلے انگریزوں نے بھی افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ عالم کا ماننا ہے کہ خلیل زاد افغان سپہ سالار سے الگ نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’وہ بہت حد تک ایک افغان سپہ سالار ہیں۔ ان کا سیاسی ایجنڈا کسی بھی دیگر افغان سپہ سالار جیسا ہی ہے۔‘‘
امریکہ کی جانب سے افغانستان سے فوج واپسی کے بعد بھی واشنگٹن میں خلیل زاد کی سیاسی قدر بڑھ سکتی ہے، کیونکہ ان کے علاوہ کسی بھی امریکی کو اس بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے کہ طالبان آگے کیا کر سکتا ہے۔ عالم کہتے ہیں ’’اسی لیے بائڈن (امریکی صدر جو بائڈن) نے انھیں رکھا ہے، کیونکہ وہ تنہا آدمی ہے جو طالبان سے بات کر سکتا ہے۔‘‘
Published: undefined
نیو امریکہ کے بین الاقوامی سیکورٹی پروگرام کے ایک سینئر فیلو ایونس کوسکنس کہتے ہیں کہ ’’وہ اپنے مشن میں کامیاب رہا ہے۔ جس طرح برطانوی اور فرانسیسی وزیر اعظم نیول چیمبرلین اور ایڈورڈ ڈالڈیر ستمبر 1938 مینوخ معاہدہ کے بعد جرمنی کی توسیع کو روکنے میں ناکام رہے، سفارت کار خلیل زاد نے فروری 2020 میں دوحہ میں ایک معاہدے پر دستخط کیے، جو صلح اور نبردآزما لوگوں کے درمیان ایک سیاسی معاہدہ کرنے میں ناکام رہا۔‘‘
کوسکنس نے ٹی آر ٹی ورلڈ کو بتایا کہ ’’طالبان افغانستان کے کل قبضہ کے اپنے ارادے کو لے کر واضح تھے۔ سفارت کار خلیل زاد کی کوششوں کو امریکہ کے لیے ایک آسان نکاسی (آسانی سے افغانستان سے نکلنا) کے بارے میں مانا جاتا تھا، جس نے افغانستان میں کوئی گڑبڑی نہیں چھوڑی۔ طالبان نے تو اپنا ہدف حاصل کیا، لیکن سفارت کار خلیل زاد نے ایسا نہیں کیا۔‘‘
Published: undefined
کوسکنس ایک سابق امریکی فوجی افسر ہیں جنھوں نے خصوصی دستوں کے رکن کی شکل میں سالوں تک افغانستان میں خدمات دی، انھوں نے بھی افغان امن عمل اور اس میں خلیل زاد کے کردار کی تلخ تنقید کی۔ انھوں نے خلیل زاد کی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’دوحہ سیاسی قبولیت اور معتبریت حاصل کرنے کے لیے طالبان کے ذریعہ ایک دانشمندی بھرا قدم تھا۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’افغانستان کے طالبان کے قبضہ میں بہت کم سیاسی عمل رہا ہے۔ جب دوحہ میں طالبان کے سیاسی نمائندے بات کر رہے تھے، افغانستان میں ان کے کمانڈر لڑ رہے تھے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined