کابل: انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے) نے کہا ہے کہ جب سے طالبان نے افغانستان میں اقتدار سنبھالا ہے، تب سے صحافیوں کی آزادی اور صحافیوں کی حفاظت کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے، اور میڈیا کے افراد کو ایک سنگین صورتحال کا سامنا ہے۔ حملے بڑھ گئے ہیں جس کی وہ مذمت کرتا ہے۔
Published: undefined
آئی ایف جے نے افغانستان نیشنل جرنلسٹس یونین (اے این جے یو) کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 15 اگست کو طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد سے افغان صحافیوں اور میڈیا ورکرز کی موجودہ صورت حال کو دیکھایا جائے، جو آزادی کے تناظر میں اٹھائے جانے والے خدشات کی تصدیق کرتا ہے۔
Published: undefined
اے این جے یو نے ملک بھر کے 28 صوبوں سے 1،379 صحافیوں اور میڈیا کے عملے کا سروے کیا۔ آئی ایف جے نے کہا کہ اس کے اتحادیوں کے نتائج نے افغان میڈیا سیکٹر کو درپیش دشمنانہ ماحول کو اجاگر کیا ہے۔ رپورٹ میں خواتین صحافیوں کو درپیش سنگین خطرات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ ملک میں 67 فیصد صحافی اور میڈیا کے نمائندے خواتین ہیں، جن کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔
Published: undefined
طالبان نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد شروع میں اپنے آپ کو خواتین کے حقوق کے حامی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی لیکن بعد میں میڈیا ہاؤسز کو ہدایت دی کہ وہ خواتین کی قیادت میں پروگرامز بند کریں اور خواتین صحافیوں کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیں۔ این جے یو کی رپورٹ کے مطابق سروے میں شامل 70 فیصد سے زیادہ لوگوں کو دھمکیاں موصول ہوئی ہیں۔ جب سے طالبان اقتدار میں آیا ہے، ان میں سے بیشتر کو زبانی دھمکی دی گئی اور 21 فیصد نے اشارہ کیا کہ انہیں جسمانی طور پر دھمکی دی گئی ہے۔ رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ صحافیوں اور میڈیا اہلکاروں پر حملے نہ صرف طالبان کرتے ہیں بلکہ 40 فیصد حملے نامعلوم حملہ آور کرتے ہیں۔
Published: undefined
واضح رہے کہ افغانستان میں تعینات غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے نتیجے میں میڈیا انڈسٹریز زبردست معاشی اثرات کے ساتھ ساتھ سکیورٹی خدشات سے بھی دوچار ہے۔ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے کم از کم 67 فیصد صحافی اور میڈیا اہلکار بے روزگار ہو چکے ہیں۔ افغانستان میں میڈیا کی صلاحیت کو محدود کرنے کے احکامات روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ 19 ستمبر کو میڈیا کے لئے 11 جامع قوانین نافذ کیے گئے تھے جن سے صوابدیدی مواد کو سنسر کیا گیا اور پریس کی آزادی کو محدود کیا گیا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز