افغانستان میں طالبان کی قیادت والی عبوری حکومت نے امریکہ اور مغربی دنیا کو ان وعدوں کی یاد دلائی ہے جو امریکہ نے اس کی اعلیٰ قیادت کو عالمی پابندیوں اور دہشت گردوں پر مبنی فہرست سے ہٹانے کے لیے کیے تھے، جس میں اس کی حکومت کی قبولیت یقینی کرنے کا وعدہ بھی شامل تھا۔
Published: undefined
طالبان نے واشنگٹن سے اپنے وعدے کو پورا کرنے اور افغانستان میں حکومت کے قیام سے متعلق غیر ضروری تنقید سے دور رہنے کی گزارش کی ہے۔ طالبان کی قیادت والی حکومت کے کارگزار وزیر خارجہ امیر متقی نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ طالبان حکومت کو قبولیت یقینی کرنے اور اس کے لیڈروں کو عالمی پابندی والی فہرست سے ہٹانے اور دوحہ معاہدہ میں نامزد دہشت گردوں کی فہرست سے ان کے ناموں کو ہٹانے کے لیے متفق ہوا تھا، جس کے بعد افغانستان سے بیرونی فورسز کی واپسی ہوئی ہے۔
Published: undefined
امیر متقی نے کہا کہ دوحہ معاہدہ کے دوران امریکہ نے تحریری شکل میں کہا تھا کہ وہ بین الاقوامی طبقہ کے ذریعہ طالبان کی قیادت والی حکومت کی قبولیت یقینی کرے گا اور طالبان کے سینئر لیڈروں کے ناموں کو عالمی پابندیوں اور نامزد فہرستوں سے ہٹانا بھی یقینی کرے گا۔ امیر متقی کا یہ بیان کافی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ مغربی ممالک افغانستان میں طالبان کے عبوری سیٹ اَپ کی تنقید کر رہے ہیں۔ خصوصاً ان لیڈروں کی جن کے خلاف عالمی پابندیاں ہیں، اور جن کے سروں پر لاکھوں ڈالرس کے انعام بھی ہیں۔
Published: undefined
امریکہ کے ساتھ ہی مغربی ممالک اور بین الاقوامی طبقہ نے کہا ہے کہ ان کے لیے مشتبہ تاریخ اور عالمی پابندیوں کے ساتھ فی الحال طالبان قیادت کو پہچاننا مشکل ہے اور وہ کوئی جلدبازی نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ طالبان کا تازہ بیان یہ انکشاف کرتا ہے کہ طالبان قیادت کے لیے عالمی قبولیت دوحہ سمجھوتہ کا حصہ ہے، جس پر واشنگٹن کے ذریعہ یکسر اتفاق ظاہر کیا گیا ہے، یقینی طور سے اس طرح کے عزم کے پیچھے موجود دلیل اور بنیاد پر ہنگامہ برپا ہو سکتا ہے۔
Published: undefined
دوسری جانب واشنگٹن عبوری طالبان حکومت کو کسی بھی طرح کی منظوری یا قبولیت دینے سے انکار کر رہا ہے اور اس نے زور دے کر کہا ہے کہ جب تک طالبان بین الاقوامی مطالبات پورے نہیں کرتا فکر کا ازالہ نہیں کرتا، اس وقت تک کوئی منظوری نہیں دی جا سکتی ہے۔ بین الاقوامی مطالبات میں خواتین اور دیگر ذات پر مبنی گروپوں کی نمائندگی کے ساتھ ایک مشترکہ حکومت کی تشکیل، خواتین کے حقوق اور افغانستان کو دہشت گرد تنظیموں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ میں نہیں بدلنے پر مثبت عزام شامل ہے، جو امریکہ کے ساتھ ہی علاقہ اور باقی دنیا کے لیے ایک اہم حفاظتی فکر کا موضوع بن سکتا ہے۔ لیکن طالبان کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی طبقہ کے سبھی مطالبات کو پہلے ہی پورا کیا جا چکا ہے، کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ موجودہ عبوری حکومت در اصل ایک مشترکہ حکومت ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined