جرمنی میں اچانک ہوئی ٹرین اسٹرائک سے لاکھوں مسافر پریشان ہو گئے ہیں۔ جرمنی کے ٹرین ڈرائیوروں کی نمائندگی کرنے والے ایک ادارہ نے کام کے گھنٹوں اور تنخواہ کو لے کر اسٹیٹ کی ملکیت والے اہم ریلوے آپریٹر کے ساتھ تنازعہ کے بعد بدھ کی صبح تقریباً تین دنوں کی ہڑتال شروع کر دی۔ یعنی تین دنوں تک اب مسافروں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
Published: undefined
ٹرین اسٹرائک کے بعد ریلوے اسٹیشنوں پر سناٹا پسرا ہوا ہے۔ جرمنی کے کئی شہروں میں ٹرینوں کا کا ایک طرح سے چکہ جام ہو گیا ہے۔ مسافر بس یا کار سے سفر کر رہے ہیں، اور دوری والے سفر کے لیے فلائٹ کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ ریاست کی ملکیت والی ڈائچے بان کا کہنا ہے کہ طویل مسافر کی صرف 20 فیصد ٹرینیں چل رہی ہیں اور برلن جیسے شہروں میں کمپیوٹر ٹرینیں بھی نہیں چلائی جا رہی ہیں۔
Published: undefined
میڈیا رپورٹس کے مطابق مال گاڑیوں کو لے کر جی ڈی ایل یونین کی ہڑتال منگل کی شام سے ہی شروع ہو گئی تھی۔ تنخواہ تنازعہ میں جی ڈی ایل یونین نے گزشتہ سال پہلے ہی دو ہڑتالیں بطور تنبیہ کی تھیں، جو مسافر ٹرانسپورٹیشن کے لیے 24 گھنٹے تک چلی تھیں۔ موجودہ ہڑتال کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ یہ جمعہ کی شام 6 بجے تک رہے گی۔
Published: undefined
بتایا جاتا ہے کہ ڈائچے بان نے آخر تک ہڑتال کو قانونی طور سے روکنے کی کوشش کی تھی، لیکن منگل کی شب ایک عدالت نے حکم دیا کہ ہڑتال آگے بڑھ سکتی ہے۔ گزشتہ مہینے کے آخر میں جی ڈی ایل کے اراکین نے تنازعہ کے بعد ہڑتال کرنے کے لیے بڑی تعداد میں ووٹنگ کی تھی۔ یہ ہڑتال کچھ اہم مطالبات کو لے کر کی جا رہی ہے۔ ان میں تنخواہ بڑھانے کے علاوہ اہم مطالبہ یہ ہے کہ تنخواہ کٹوتی کے بغیر شفٹ مزدوروں کے گھنٹوں کو فی ہفتہ 38 سے گھٹا کر 35 گھنٹہ کیا جائے۔ جی ڈی ایل کی دلیل ہے کہ یہ ریلوے کے لیے کام کو مزید پرکشش بنا دے گا اور نئی بھرتیوں کو متوجہ کرنے میں مدد کرے گا، جبکہ ڈائچے بان کا کہنا ہے کہ مطالبہ عملی طور پر پورا نہیں کیا جا سکتا ہے۔
Published: undefined
جرمنی کے وزیر ٹرانسپورٹ وولکر ویسنگ نے دونوں فریقین سے بات چیت کرنے کی اپیل کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایسا راستہ تلاش کرنا ہوگا جس سے دونوں فریقین ساتھ مل سکیں۔ وزیر محترم نے کہا کہ ’’اس کا مطلب ہے ایک دوسرے سے بات کرنا۔ میں دونوں فریقین سے بات چیت پر لوٹنے کی گزارش کرتا ہوں۔‘‘ حالانکہ یونین چیف کلاس ویسیلسکی نے کہا کہ بہتر تجویز پیش کرنا اب ڈائچے بان پر منحصر ہے۔ اگر جمعہ تک کوئی نئی تجویز نہیں آتی ہے تو ہم بریک لیں گے اور اگلی ہڑتال پر جائیں گے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined