ویانا: مذہب کے نام پر جہاں کسی بھی طرح کا تشدد قابل قبول نہیں وہیں ایک پریشانی یہ بھی ہے کہ مختلف سربراہان مملکت دل پزیر تقریریں تو کرتے ہیں مگر اپنی کہی ہوئی باتوں پر عام طورپر عمل نہیں کرتے۔اس تمہید کے ساتھ جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے کہا کہ جولوگ مذہب کا استعمال نفرت اور تشددبرپا کرنے کےلئے کرتے ہیں وہ اپنے مذہب کے سچے پیروکار نہیں ہوسکتے اور ہمیں ہرسطح پر ایسے لوگوں کی مذمت اور مخالفت کرنی چاہئے ۔
یہاں ’’کیسیڈ‘‘ (C A I C II D) کی سہ روزہ بین المذاہب کانفرنس سے فراغت کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگوکرتے ہوئے مولانا ارشدنے کہا کہ اس وقت جب دنیا کے بیشتر ممالک بدامنی ، انتشاراور تشددکا شکار ہیں ،کہیں نسلی تعصب ہے تو کہیں لسانی ، مذہبی تعصب کو ہوادےکر انتشار وتفریق پیداکی جارہی ہے ،ہمیں مذہب سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بنیادپر دنیا کے تمام مصیبت زدہ لوگوں کی مددکرنی چاہئے ۔
انہوں نے کہا کہ عصری منظر نامے میں سیاست دانوں میں نفرت کی تخم ریزی کرکے اقتدارحاصل کرنے کی ہوس شدیدترہوگئی ہے ، جس کی وجہ سے پوری دنیامیں تعصب اور مذہبی تشددمیں غیر معمولی طورپر اضافہ ہوا ہے بعض حکمرانوں نے ڈراورخوف کی سیاست کو اپنا شعاربنالیا ہے ۔
کیسڈکی بین المذاہب کانفرنس کی ستائش کرتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ اس سے افہام وتفہیم کی راہیں کھلی ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ مختلف مذاہب کہ لوگوں کے اس طرح ایک ساتھ آنے اور بات چیت کرنے سے بہت سی غلط فہمیوں کا نہ صرف ازالہ ہوگا بلکہ پوری دنیا میں اس کا ایک مثبت پیغام بھی جائے گا اور عالمی سطح پر مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان انشاء اللہ اتحاد واتفاق کی فضاء ہموار ہوگی ۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی طرح مذہبی شدت پسندی کی بھی مذمت کی جائے، اس کے خلاف عالمی سطح پر اب تک کوئی مؤثر کوشش نہیں ہوئی ہے ۔ ’’تاہم امید افزا بات یہ ہے کہ کیسڈ نے اس مسئلہ کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے اوراس کے خاتمہ کے لئے مؤثر انداز میں پوری دنیا میں کام کررہی ہے‘‘ ۔
مولانا مدنی نے شام میں اب تک کےاقوام متحدہ کےکردارکو بہت افسوسناک قرار دیا اورکہا کہ جن مقاصد کو لےکر اس عالمی ادارے کی تشکیل ہوئی تھی وہ فوت ہورہے ہیں۔
اس اجلاس میں متعدداہم قراردادیں منظور ہوئیں تین اہم کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئیں ، ایک مشرق وسطیٰ کے لئے ، دوسری یورپ وامریکہ اور تیسری ایشیاکے امور کو دیکھنے کے لئے بنائی گئی ہیں ۔
Published: 03 Mar 2018, 4:59 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 03 Mar 2018, 4:59 PM IST