ایرانی صدر کا ہیلی کاپٹر حادثہ کا شکار ہو گیا ہے ۔ خبر لکھے جانے تک ہیلی کاپٹر کی تلاش جاری ہے ۔ خراب موسم، دھند اور بارش کی وجہ سے ہیلی کاپٹر کی تلاش میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کو ایران کے سپریم مذہبی رہنما کا قریبی اور خاص بتایا جاتا ہے۔
Published: undefined
قدامت پسند نظریات کے حامل تریسٹھ سالہ ابراہیم رئیسی 2021 میں ایران کے صدر بننے سے قبل چیف جسٹس کے عہدے پر فائز تھے۔ اس سے قبل وہ تین دہائیوں تک ملک کے قانونی نظام سے منسلک رہے ۔ اس کے علاوہ بھی وہ کئی اہم ذمے داریاں ادا کر چکے ہیں۔ابراہیم رئیسی کو ایران کے سپریم لیڈرآیت اللہ علی خامنہ ای کا قریبی معتمد تصور کیا جاتا ہے جس کی بنا پر اُنہیں آیت اللہ خامنہ ای کے جانشین کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔
Published: undefined
ابراہیم رئیسی سن 1960 میں ایران کے شہر مشہد میں پیدا ہوئے۔ شیعہ گھرانے میں پیدا ہونے والے ابراہیم رئیسی نے قم شہر کے ایک مدرسے سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔سن 1979 میں ایران میں ہونے والے انقلاب اور شاہِ ایران کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں اُنہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ابراہیم رئیسی کو انقلاب کے بعد ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی قربت بھی حاصل رہی جو 1981 میں ایران کے صدر بنے تھے۔
Published: undefined
محص 25 برس کی عمر میں ابراہیم رئیسی ایران کی عدلیہ میں بطور پراسیکیوٹر مقرر ہوئے اور تہران کے ڈپٹی پراسیکیوٹر کے طور پر بھی کام کرتے رہے۔
Published: undefined
ابراہیم رئیسی نے 2017 کے صدارتی انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا تاہم حسن روحانی نے اُنہیں شکست دے دی تھی۔ وہ 38 فی صد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔سال 2019 میں اس وقت امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ابراہیم رئیسی پر اس وجہ سے پابندی عائد کر دی تھی کہ ان کی انتظامی نگرانی میں ایسے افراد کو بھی پھانسی دے دی گئی تھی جو جرم کے ارتکاب کے وقت کم عمر تھے۔ اسی طرح اس وقت ایران میں قیدیوں کے ساتھ ایذا رسانی اور دیگر سخت سزاؤں کا بھی چلن عام تھا۔
Published: undefined
ان پر الزام ہے کہ رئیسی عدلیہ کے سربراہ کی حیثیت سے ایسے نظام کے نگران تھے جس پر قیدیوں اور سرگرم کارکنوں کے خاندان طویل عرصے سے تنقید کرتے آ رہے ہیں کہ وہ دوہری شہریت والوں کو اور ان افراد کو ہدف بناتے ہیں جن کا مغرب کے ساتھ تعلق ہو اور وہ ان کو مذاکرات میں اپنی شرائط منوانے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ (بشکریہ وی او اے، اردو)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined