دیگر ممالک

انڈونیشیا نے شادی سے قبل جسمانی رشتہ قائم کرنے پر لگائی پابندی، ’لیو-اِن رلیشن‘ بھی ہوگا جرم، نئے قانون کو ملی منظوری

ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈونیشیا کا کہنا ہے کہ استحصال والے قوانین کو ختم کر دیا جانا چاہیے تھا، لیکن بل دکھاتا ہے کہ بیرون ممالک میں دانشوروں کے دلائل درست ہیں، ہماری جمہوریت میں بلامبالغہ گراوٹ آ رہی ہے

شادی، علامتی تصویر آئی اے این ایس
شادی، علامتی تصویر آئی اے این ایس 

دنیا کے بیشتر ممالک نے ’لیو-اِن رلیشن‘ کو قانونی درجہ دے دیا ہے اور شادی سے قبل جسمانی رشتہ قائم کرنے کو بھی کئی ممالک میں برا تصور نہیں کیا جاتا۔ لیکن انڈونیشیا کی پارلیمنٹ میں ایک ایسے قانون کو منظوری مل گئی ہے جس میں شادی سے قبل ہم بستری پر پابندی لگ گئی ہے۔ ساتھ ہی ’لیو-اِن رلیشن‘ کو بھی جرم کے درجہ میں شامل کر لیا گیا ہے۔

Published: undefined

میڈیا رپورٹس کے مطابق منگل کے روز انڈونیشیا کی پارلیمنٹ نے ایک ایسے قانون کو پاس کر دیا ہے جو شادی سے قبل ہم بستری اور لیو-اِن رلیشن کو مجرمانہ عمل قرار دیتا ہے۔ حکومت کے اس قدم کو ناقدین نے ملک کی آزادی کے لیے ایک بڑا جھٹکا قرار دیا ہے۔ حقوق انسانی سے متعلق کئی گروپوں نے اس قانون کے خلاف آواز اٹھائی تھی اور کہا تھا کہ یہ عوام کی آزادی پر قدغن ہے اور شدت پسندی کی طرف بڑھایا گیا ایک قدم ثابت ہوگا۔ حالانکہ شدید مخالفتوں کے باوجود انڈونیشیا کی پارلیمنٹ نے نئے قانون کو منظوری دے دی۔

Published: undefined

انڈونیشیا کے وزیر برائے قانون و حقوق انسانی یاسونا لاؤلی کا کہنا ہے کہ ’’ہم نے اہم ایشوز اور الگ الگ مشوروں کو شامل کرنے کے لیے اپنی پوری کوشش کی ہے، جن پر بحث ہوئی تھی۔ حالانکہ یہ ہمارے لیے تعزیرات ترمیم پر ایک تاریخی فیصلہ لینے اور سرمایہ دارانہ مجرمانہ تعزیرات کو پیچھے چھوڑنے کا وقت ہے۔‘‘ بتایا جاتا ہے کہ وزارت قانون و حقوق انسانی کے مجرمانہ کوڈ بل نشریہ ٹیم کے ترجمان البرٹ ایریز نے ووٹنگ سے قبل ترامیم کا دفاع کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ قانون ’شادی‘ کی حفاظت کرے گا۔ بہرحال، نئے قانون سے متعلق وزارت قانون و حقوق انسانی کا کہنا ہے کہ شادی سے قبل جسمانی رشتہ اور شادی کے بعد کسی سے ناجائز رشتہ کو صرف ایک شوہر یا بیوی، والدین یا بچے ہی رپورٹ کر سکتے ہیں۔ حالانکہ حقوق انسانی گروپ نے اس قانون کو ’اخلاقیات کی نگرانی‘ ماننے سے انکار کر دیا ہے۔

Published: undefined

نئے قانون سے متعلق ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈونیشیا کے ڈائریکٹر عثمان حامد نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم پیچھے جا رہے ہیں۔ استحصال والے قوانین کو ختم کر دیا جانا چاہیے تھا، لیکن بل دکھاتا ہے کہ بیرون ممالک میں دانشوروں کے دلائل درست ہیں، ہماری جمہوریت میں بلامبالغہ گراوٹ آ رہی ہے۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined