برطانیہ میں جاری سیاسی اتھل پتھل وزیر اعظم لز ٹرس کے استعفیٰ کے بعد مزید تیز ہو گئی ہے۔ اس درمیان سابق چانسلر اور ہند نژاد رکن پارلیمنٹ رشی سنک اگلے وزیر اعظم اور کنزرویٹو پارٹی لیڈر بننے کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے ضروری 100 اراکین پارلیمنٹ کی حمایت حاصل کرنے کی دہلیز پر پہنچ گئے ہیں۔ یہ بات ہفتہ کے روز ایک میڈیا رپورٹ میں کہی گئی ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سنک کو اب تک 93 سے زائد کنزرویٹو اراکین پارلیمنٹ کی حمایت مل چکی ہے۔ سابق وزیر اعظم بورس جانسن 44 اراکین پارلیمنٹ کی حمایت کے ساتھ دوسرے مقام پر ہیں۔
Published: undefined
حکومت کے چیف کی شکل میں لز ٹرس کے استعفیٰ دینے کے بعد رشی سنک اور جانسن نے آفیشیل طور پر ٹرس کے جانشیں کی شکل میں مقابلہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لز ٹرس نے صرف 45 دنوں کے بعد ہی گزشتہ جمعرات کو وزیر اعظم کے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
Published: undefined
اس درمیان رشی سنک سے جڑے ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں سابق ہیلتھ سکریٹری ساجد جاوید، وزیر دفاع ٹام تگیندت اور سابق ہیلتھ سکریٹری میٹ ہینکاک سمیت کئی سینئر ساتھیوں کی حمایت ملی ہے۔ ساجد جاوید نے کہا کہ ’’رشی سنک کو یہ واضح طور سے پتہ ہے کہ آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کس طرح کرنا ہے، وہ ہماری پارٹی کی قیادت کرنے اور ملک کو آگے لے جانے کے لیے مناسب شخص ہیں۔‘‘ ایک دیگر سنک حامی ٹوبیاس ایلووڈ نے دعویٰ کیا کہ وہ سنک کی حمایت کرنے والے 100ویں رکن پارلیمنٹ تھے۔
Published: undefined
بورس جانسن کے حامی وزیر برائے کامرس جیمس ڈڈرز نے جمعہ کی شب بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سابق وزیر اعظم کے پاس رفتار اور حمایت تھی۔ بہرحال، وزیر اعظم عہدہ کی دوڑ میں ایک دیگر دعویدار ہاؤس آف کامنس کے موجودہ لیڈر پینی موڈرنٹ بھی ہیں، جن کو اب تک 21 اراکین پارلیمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دعویداروں کے پاس 24 اکتوبر تک دوپہر 2 بجے تک ضروری 100 اراکین پارلیمنٹ کی حمایت حاصل ہونی چاہیے۔ اگر تینوں دعویدار ضروری حمایت حاصل کر لیتے ہیں تو کنزرویٹو اراکین پارلیمنٹ اسی دن ایک بار ووٹنگ کریں گے۔ اس کے بعد دو فاتح دعویداروں کے درمیان مقابلہ ہوگا اور 28 اکتوبر کو پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ کے ذریعہ آن لائن ووٹنگ کے ذریعہ سے آخری فیصلہ کیا جائے گا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز