افغانستان میں طالبانی حکومت کا آغاز ہو چکا ہے اور جہاں کئی لوگ اس واقعہ کو مثبت انداز میں دیکھ رہے ہیں، وہیں افغانستان سے کئی خوفناک واقعات کے رونما ہونے کی خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وہاں ایک خوف و دہشت کا عالم ہے اور غیر ملکی افراد کے ساتھ ساتھ مقامی باشندے بھی جلد از جلد ملک چھوڑ کر بھاگنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اس درمیان افغانستان کی پہلی خاتون میئر ظریفہ غفاری کا ایک بیان سامنے آ رہا ہے جو افغانستان میں موجود خوف کو ظاہر کرتا ہے۔
Published: undefined
ظریفہ غفاری نے اپنے بیان میں افغانستان کی دردناک صورت حال لوگوں کے سامنے پیش کی ہے اور کہا ہے کہ افغانی باشندوں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں، سبھی بے یار و مددگار خوف کے سایہ میں زندگی گزار رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہماری مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے، ہم بس انتظار کر رہے ہیں کہ طالبانی ہمیں آ کر ماریں گے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’میں یہاں بیٹھی ہوں اور ان کے آنے کا انتظار کر رہی ہوں۔ کوئی بھی میری یا میرے اہل خانہ کی مدد کرنے کے لیے یہاں نہیں ہے۔ میں صرف اپنے شوہر اور اہل خانہ کے ساتھ ہوں۔ وہ لوگ ہمارے جیسے لوگوں کے لیے آئیں گے اور مار دیں گے۔‘‘
Published: undefined
دراصل افغانستان پر طالبان کے قبضہ کو دیکھتے ہوئے صدر اشرف غنی اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے کر ملک سے باہر چلے گئے۔ حکومت کے کئی دیگر بڑے لیڈران بھی ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ ایسے حالات میں ظریفہ غفاری کو افغانستانی باشندوں، خصوصاً طالبان کی مخالفت کرنے والے لوگوں کی فکر ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ بڑے لیڈران تو ملک چھوڑ کر چلے گئے، لیکن ہم سب کہاں جائیں؟ کچھ دنوں پہلے کی ہی بات ہے جب ظریفہ نے ایک بین الاقوامی ادارہ کو انٹرویو دیا تھا جس میں امید ظاہر کی تھی کہ افغانستان کا مستقبل بہتر ہوگا، لیکن اتوار کو ان کا یہ خواب پوری طرح ٹوٹ گیا۔
Published: undefined
واضح رہے کہ ظریفہ غفاری سال 2018 میں افغانستان کی پہلی اور سب سے کم عمر میئر بنی تھیں۔ انھیں کئی بار طالبان کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔ ظریفہ کے والد جنرل عبدالواسع غفاری کو طالبان کے جنگجوؤں نے ہی گزشتہ سال مار دیا تھا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز