نیپال کے مغربی لامجنگ ضلع میں ملک کی پہلی ہم جنس شادی رجسٹر کی گئی ہے اور اسے ملک میں لیسبئن-گے-بائی سیکسوئل-ٹرانسجینڈر(ایل جی بی ٹی) کمیونٹی کے حقوق کی جیت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
Published: undefined
مغربی لامجنگ ضلع میں رسمی طور پر مایا گرونگ (35) اور سریندر پانڈے (27) کی شادی بدھ کو رجسٹر کی گئی۔ ملک کی سپریم کورٹ کی جانب سے ہم جنس جوڑوں کی شادیوں کے رجسٹریشن کے حوالے سے پانچ ماہ قبل دیے گئے عبوری حکم کے بعد یہ رجسٹریشن کی گئی ہے۔ اب تک تائیوان ایشیا کا واحد ملک تھا جہاں ہم جنس پرستوں کی شادی کی اجازت ہے۔
Published: undefined
شادی کے رجسٹریشن کے بعد، گرونگ نے بی بی سی کو بتایا، ’’آج کا دن صرف ہمارے لیے ہی نہیں بلکہ تمام جنسی اقلیتی برادریوں کے لیے ایک بڑا دن ہے۔ اپنے حقوق کے لیے یہ لڑائی آسان نہیں تھی لیکن بالآخر جیت ہماری ہی ہوئی۔ اب آنے والی نسلوں کے لیے راستہ آسان ہو جائے گا۔ "ہماری شادی کے رجسٹریشن نے ہمارے لیے بہت سی سہولیات کے دروازے کھول دیے ہیں۔"
Published: undefined
جوڑے کا کہنا تھا کہ وہ ایک مشترکہ اکاؤنٹ کھولنا چاہتے ہیں اور اپنی خریدی ہوئی زمین کی مشترکہ ملکیت لینا چاہتے ہیں لیکن ان کا سب سے بڑا خواب یہ ہے کہ ان کے مالی حالات مضبوط ہوتے ہی ایک بچہ گود لیا جائے۔
Published: undefined
یہ جوڑا تقریباً ایک دہائی سے ایک ساتھ ہے۔ دونوں نے 2017 میں ایک مندر میں شادی کی تھی اور اس سال ان کے ساتھ کو قانونی منظوری بھی مل گئی تھی۔ محترمہ گرونگ ایک ٹرانس جینڈر خاتون ہیں جنہوں نے سرکاری طور پر اپنی جنس تبدیل نہیں کی ہے۔ مسٹرپانڈے مرد کے طور پر پیدا ہوئے تھے۔
Published: undefined
سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود اس معاملے میں نیپال کے دارالحکومت کاٹھ مانڈو کی ضلعی عدالت نے ان دونوں کی شادی کے رجسٹریشن کی اجازت نہیں دی تھی، جب کہ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں حکومت کوایسے معاملات میں قانون کے تحت ضروری تبدیلیاں کرنے کی ہدایت دی تھی۔
Published: undefined
ضلعی عدالت نے دلیل دی تھی کہ نچلی عدالتیں اس حکم پر عمل کرنے کی پابند نہیں ہیں کیونکہ یہ صرف حکومت کو ہدایت دی گئی تھی۔لیکن بدھ کے روز، ڈورڈی دیہی میونسپلٹی کے چیف ایڈمنسٹریٹو آفیسر ہیم راج کافلے نے رائٹرز کو بتایا "ہم نے سپریم کورٹ کے حکم اور متعلقہ سرکاری حکام کی ہدایات پر غور کرتے ہوئے، جوڑے کو شادی کا رجسٹریشن سرٹیفکیٹ جاری کر دیا گیا ہے۔"
Published: undefined
ممتاز ایل جی بی ٹی حقوق کارکن سنیل بابو پنت نے اس 'تاریخی' لمحے کو جنسی اور صنفی اقلیتوں کی فتح قرار دیا۔ انہوں نے کہا، ’’اب ہم اپنی شادی کو عام جوڑوں کی طرح رجسٹر کروا سکتے ہیں لیکن دیگر حقوق حاصل کرنے کے لیے ہمیں اور ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined