افغانستان کے نگراں وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند نے سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید کے درمیان اپنی خاموشی توڑتے ہوئے طالبان کے دور حکومت میں وزیر اعظم مقرر ہونے کے بعد پہلی بار ایک بیان جاری کیا ہے۔
Published: undefined
افغانستان کے قومی ریڈیو اور نیوز چینل پر حسن اخوند کا آڈیو پیغام نشر کیا گیا جس میں سابق افغان صدر اشرف غنی پر بدعنوانی اور فنڈ کے غبن کے الزامات لگائے گئے۔ خامہ نیوز پر نشر ہونے والے ایک پیغام میں مسٹر اخوند نے کہاکہ "مسٹر غنی نے صدارتی محل میں ایک بینک قائم کررکھا تھا۔"
Published: undefined
انہوں نے بتایا کہ طالبان فوجیوں نے صدارتی محل سے مسٹرغنی اور ان کے ٹیم کے فرار ہونے کے بعد کافی رقم برآمد کی تھی۔ عام معافی کے معاملے پر انہوں نے کہا کہ طالبان عام لوگوں اور فوجی اہلکاروں کو بھی عام معافی دے گی۔ انہوں نے کہا کہ صرف ان لوگوں کو سزا دی جائے گی جنہوں نے جرم کیا ہے۔
Published: undefined
خواتین کے حقوق کے معاملے پر افغانستان کے نگران وزیر اعظم نے کہا کہ طالبان اسلامی قانون کے مطابق خواتین کی عزت کرنے کے لیے پرعزم ہیں اور انھیں گزشتہ انتظامیہ سے بہتر سہولیات دی جائیں گی، تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایاکہ طالبان کی سابقہ حکومت کے مقابلے افغانستان میں خواتین کو آزادی اور حقوق کیسے دیے جائیں گے؟
Published: undefined
ملک میں غربت کے معاملے پر انہوں نے کہا کہ طالبان نے اس معاملے پر کوئی وعدہ نہیں کیا ہے۔ لوگوں کو اس کے لیے اللہ سے دعا کرنی چاہیے۔ دوسری جانب طلوع نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق مسٹر اخوند نے بتایا کہ امارت اسلامیہ تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتی ہے اور ان کے ساتھ اقتصادی تعلقات قائم کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امارت اسلامیہ کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔
Published: undefined
مسٹر اخوند نے عالمی برادری سے بھی اپیل کی کہ وہ افغانستان کے لوگوں کے لیے انسانی امداد جاری کرے۔ سیکیورٹی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے نگراں وزیراعظم نے کہا کہ انہیں اطلاع ملی تھی کہ کچھ مسلح افراد عام لوگوں کے گھروں میں گھس کر افراتفری پھیلا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات کے مرتکب افراد کا تعلق امارت اسلامیہ سے نہیں ہے اور حکام کو ہدایت دی گئی ہے کہ ایسے واقعات کو روکا جائے۔
Published: undefined
انہوں نے دعویٰ کیا کہ افغانستان کی موجودہ حکومت پچھلی حکومت کے مقابلے میں زیادہ جامع ہے کیونکہ پچھلی حکومت میں اقتدار محدود تعداد میں لوگوں کے ہاتھ میں تھا۔
Published: undefined
واضح رہے کہ مسٹر اخوند طالبان کی تحریک کے آغاز سے ہی طالبان حکومت کے ایک اہم رکن رہے ہیں۔ 1996 سے 2001 تک افغانستان میں طالبان انتظامیہ کے دوران انہوں نے قندھار صوبے کے گورنر کے طور پر خدمات انجام دیں اور اقوام متحدہ کی جانب سے پابندیاں عائد کیے جانے پر مختلف دیگر وزارتیں بھی سنبھالیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز