نیپال کے ذریعہ جاری کردہ نئے نقشہ کو لے کر ایک ہنگامہ برپا ہو گیا ہے۔ جہاں ہندوستان میں نیپالی نقشہ کو لے کر اس کی تنقید ہو رہی ہے، وہیں نیپال کی ایک خاتون رکن پارلیمنٹ نے بھی اس نئے نقشہ کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ میڈیا ذرائع کے مطابق نیپالی پارلیمنٹ میں دو دن قبل نقشے میں تبدیلی کو لے کر آئین ترمیمی بل پاس کرایا گیا اور اس دوران رکن پارلیمنٹ سریتا گری نے مخالفت کی آواز بلند کی۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق اس رکن پارلیمنٹ کے گھر پر کچھ لوگوں نے حملہ کیا ہے اور ان کے گھر کے باہر سیاہ پرچم لگا دیے گئے ہیں۔ کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ شکایت کے باوجود پولس ان کی مدد کے لیے نہیں پہنچی۔
Published: undefined
دراصل نیپال میں سماجوادی پارٹی کی لیڈر سریتا گری نے نقشے میں تبدیلی کو لے کر آئین ترمیمی بل کی پرزور مخالفت کی تھی۔ آئین ترمیم کی قرارداد پر اپنا الگ سے ترمیمی قرارداد ڈالتے ہوئے گری نے اسے خارج کرنے کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے صاف لفظوں میں کہا تھا کہ چین کے اشاروں پر نیپال نقشے میں تبدیلی چاہتا ہے۔ سریتا گری نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ نیپال کے لوگ خود نہیں چاہتے ہیں کہ نقشے کو لے کر ہندوستان کے ساتھ کوئی تنازعہ ہو۔
Published: undefined
سریتا گری کے رخ کو وہاں کی سیاسی پارٹیوں نے نیپالی مخالف رخ قرار دیا اور ان کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ نیشنل یوتھ ایسو سی ایشن (این وائی اے) نے باضابطہ ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے ان کے خلاف ایکشن لیا جائے۔ ساتھ ہی این وائی اے نے انھیں پارلیمنٹ سے فوراً برخواست کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ قابل غور یہ بھی ہے کہ سریتا گری کی پارٹی نے بھی ان سے کنارہ کر لیا ہے۔
Published: undefined
واضح رہے کہ نیپال کے نئے نقشے میں لپولیکھ، کالا پانی اور لمپیادھورا کو نیپال کا حصہ بتایا گیا ہے۔ اسی وجہ سے نقشہ پر تنازعہ شروع ہو گیا اور ہندوستان میں اس کے خلاف پرزور آوازیں اٹھنے لگیں۔ ہندوستانی وزارت داخلہ نے اس پر سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کے کسی حصہ پر اس طرح کے دعوے کو ہندوستان کے ذریعہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ ہندوستانی وزارت داخلہ نے بیان جاری کر کہا کہ نیپال حکومت نے جو آفیشیل نقشہ جاری کیا ہے اس میں ہندوستانی علاقہ کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ یکطرفہ حرکت تاریخی دلائل اور ثبوتوں پر مبنی نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز