کیا افغانستان چھوڑنے سے قبل طالبان سے خفیہ سمجھوتہ کر کے امریکہ اپنی ہی جال میں بری طرح پھنس گیا ہے؟ یہ سوال اس لیے اٹھ رہا ہے کیونکہ افغانستان بحران کے درمیان دو بڑی خبریں جو نکل کر سامنے آئی ہیں، وہ اسی جانب اشارہ کر رہی ہیں۔ تازہ اور پہلی خبر یہ ہے کہ امریکہ میں طالبان کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیے جانے کا مطالبہ اٹھا ہے۔ امریکہ کے چار اراکین پارلیمنٹ کے ایک گروپ نے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کو خط لکھ کر یہ مطالبہ کیا ہے۔ امریکی اراکین پارلیمنٹ رِک اسکاٹ، جانی کے انرسٹ، ڈین سلون اور ٹامی ٹیوبرویلے نے وزیر خارجہ کو لکھے خط میں کہا ہے کہ طالبان کی سرگرمیوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ امریکیوں اور امریکی مفادات کے خلاف کام کرتا ہے۔ ایسے میں طالبان کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیا جانا چاہیے۔
Published: undefined
امریکی اراکین پارلیمنٹ کے اس گروپ نے اپنے خط میں فکر ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجی قوتوں کی جلد بازی میں واپسی نے سیکورٹی میں ایک صفر پیدا کر دیا، اس کا طالبان نے فائدہ اٹھاتے ہوئے سبھی افغان علاقوں اور راجدھانی کابل پر قبضہ کر لیا۔ اراکین پارلیمنٹ نے مزید کہا کہ افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان نے اپنی انہی قاتلانہ اور استحصال کرنے والی عادتوں کو پھر سے شروع کر دیا جو 2001 میں امریکی فوج کے آنے سے قبل ان کی حکومت میں جاری تھیں۔
Published: undefined
امریکی اراکین پارلیمنٹ کے ذریعہ طالبان کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیے جانے کا مطالبہ ایسے وقت میں آیا ہے جب اس سے ٹھیک پہلے طالبان نے امریکہ کو اس خفیہ معاہدہ کے بارے میں یاد دلایا جس میں طالبان نے اپنے ان لیڈروں کو دہشت گردوں کی فہرست سے ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے جنھیں امریکہ نے خود دہشت گرد قرار دیا تھا۔ یہی وہ دوسری بڑی خبر ہے۔
Published: undefined
افغانستان میں طالبان کی قیادت والی عبوری حکومت نے امریکہ اور مغربی دنیا کو ان وعدوں کی یاد دلائی ہے جو امریکہ نے اس کی اعلیٰ قیادت کو عالمی پابندیوں اور دہشت گردوں والی فہرست سے ہٹانے کے لیے کیے تھے، جس میں اس کی حکومت کی قبولیت یقینی کرنے کا وعدہ بھی شامل تھا۔
Published: undefined
طالبان نے واشنگٹن سے اپنے وعدے کو پورا کرنے اور افغانستان میں حکومت کے قیام کی نامناسب تنقید سے دور رہنے کی گزارش کی ہے۔ طالبان کی قیادت والی حکومت کے کارگزار وزیر خارجہ امیر متقی نے انکشاف کیا کہ امریکہ طالبان حکومت کی قبولیت یقینی کرنے اور اس کے لیڈروں کو عالمی پابندی والی فہرست سے ہٹانے اور دوحہ معاہدہ میں نامزد دہشت گردوں کی فہرست سے ان کے ناموں کو ہٹانے کے لیے راضی ہوا تھا، جس کے سبب افغانستان سے غیر ملکی فورسز کی واپسی ہوئی۔
Published: undefined
امیر متقی نے بتایا کہ دوحہ معاہدہ کے دوران امریکہ نے تحریری شکل میں کہا تھا کہ وہ بین الاقوامی طبقہ کے ذریعہ طالبان کی قیادت والی حکومت کی قبولیت یقینی کرے گا اور طالبان کے سینئر لیڈروں کے ناموں کو عالمی پابندیوں اور نامزد فہرستوں سے ہٹانا بھی یقینی کرے گا۔ امریکی اراکین پارلیمنٹ کے ذریعہ طالبان کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے مطالبہ اور دوسری طرف طالبان کے ذریعہ اپنے لیڈروں کو دہشت گردوں کی فہرست سے ہٹانے کے خفیہ سمجھوتہ کی یاد دلانے کے درمیان یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ خود کے ذریعہ بنائی گئی جال میں بری طرح پھنس گیا ہے؟
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined