مراقش میں جمعہ کے روز آئے تباہناک زلزلہ میں مہلوکین کی تعداد 2122 پہنچ گئی ہے اور زخمیوں کی تعداد تقریباً ڈھائی ہزار بتائی جا رہی ہے۔ سرکاری ٹی وی کے ذریعہ دی گئی جانکاری کے مطابق زخمیوں کی تعداد 2421 ہے، حالانکہ اس تعداد میں ابھی اضافہ ممکن ہے۔ مہلوکین کی تعداد میں بھی اضافہ کا قوی امکان ہے کیونکہ کئی زخمیوں کی حالت سنگین بنی ہوئی ہے۔ کچھ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ کئی افراد اب بھی ملبہ میں دبے ہوئے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او نے تو ایک اندازے کے مطابق بتایا ہے کہ اس قدرتی آفت میں 3 لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔
Published: undefined
مراقش میں 8 ستمبر کو آیا 6.8 شدت کا زلزلہ گزشتہ چھ دہائیوں سے بھی زیادہ وقت کے بعد آیا سب سے قہرناک زلزلہ مانا جا رہا ہے۔ اس زلزلہ نے بڑی تعداد میں گھروں اور عمارتوں کو ملبہ میں تبدیل کر دیا۔ 1960 کی دہائی کے بعد یہ سب سے تباہناک زلزلہ ہے جب تقریباً 12000 لوگوں کی موت ہوئی تھی۔ تازہ زلزلہ کے بعد حالات ایسے پیدا ہو گئے ہیں کہ ہزاروں افراد کو سر چھپانے کے لیے چھت نصیب نہیں ہے۔ متاثرین کو کھانا اور پانی کے لیے بھی جدوجہد کرنی پڑی رہی ہے۔ زلزلہ میں زندہ بچے افراد لگاتار امداد کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
Published: undefined
اس درمیان خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ زلزلہ کے بعد دور دراز کے گاؤں میں لاپتہ لوگوں کی تلاش کی جا رہی ہے۔ واقعہ کے تین دن گزر جانے کے بعد بھی سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کا پتہ نہیں چل پا رہا ہے۔ راحت رسانی میں لگے اہلکاروں کو سب سے زیادہ چیلنجز کا سامنا متاثرہ گاؤں تک پہنچنے میں کرنا پڑ رہا ہے۔ دراصل کچھ علاقوں میں اوبڑ کھابڑ پہاڑی سلسلے ہیں اور بستیاں اکثر دور ہوتی ہیں، اس لیے راحت رسانی میں مسائل سامنے آ رہے ہیں۔
Published: undefined
مراقش کے زلزلہ میں صرف انسانی جانوں کا ہی نقصان نہیں ہوا ہے، بلکہ کئی تاریخی عمارتیں بھی تباہ ہو گئی ہیں۔ مقامی میڈیا نے تاریخی طور پر انتہائی اہم 12ویں صدی کی ایک مسجد کے منہدم ہونے کی اطلاع دی ہے۔ علاوہ ازیں زلزلہ نے یونیسکو کی عالمی وراثت ماراکیچ (قدیم شہر) کے کچھ حصوں کو بھی بری طرح متاثر کر دیا ہے۔ ماراکیچ سے 40 کلومیٹر جنوب میں مولے براہیم گاؤں کے لوگوں نے بتایا کہ انھوں نے بڑی مشکل سے ملبہ میں دبی لاشوں کو باہر نکالا۔ گاؤں کے باشندوں نے بتایا کہ انھوں نے ایک پہاڑی پر 45 سالہ خاتون کو دفن کیا۔ یہ کاتون اپنے 18 سالہ بیٹے کے ساتھ فوت کر گئی تھی۔
Published: undefined
اس درمیان متاثرین کے دردناک تجربات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ کئی لوگ اپنے منہدم گھروں سے سامان نکال رہے ہیں، حالانکہ نقصان بہت زیادہ ہوا ہے اور کچھ گھروں سے تو سامان نکالنا بھی ممکن نہیں۔ حسین عدنائی نامی شخص کا کہنا ہے کہ اب بھی قریب کے ملبہ میں کچھ لوگ دبے ہوئے ہیں۔ عدنائی نے کہا کہ ’’راحت و بچاؤ کام وقت پر نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگوں کی موت ہوئی۔ میں نے اپنے بچوں کو کسی طرح بچایا۔‘‘ 36 سالہ یاسین نومگھر نے پانی، کھانا اور بجلی کی کمی سے متعل شکایت کی۔ انھوں نے کہا کہ ’’اب تک بہت کم سرکاری امداد ملی ہے۔ ہم نے سب کچھ گنوا دیا۔ ہم پورے گھر سے محروم ہو گئے۔ ہم بس یہی چاہتے ہیں کہ ہماری حکومت ہماری مدد کرے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز