خبریں

عورت مارچ: اب بھی مشکلات ومخالفت کا شکار

اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے اجازت ملنے کے باوجود عورت مارچ کی راہ میں کھڑی کی جانے والی رکاوٹیں دم نہیں توڑ رہیں اور مارچ کے منتظمین کو اب بھی کئی مشکلات اور سخت مخالفت کا سامنا ہے۔

عورت مارچ: اب بھی مشکلات ومخالفت کا شکار
عورت مارچ: اب بھی مشکلات ومخالفت کا شکار 

کل اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس مارچ کو محدود کنے کے حوالے سے ایک پٹیشن دائر کی گئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ مارچ کے شرکا کو حکم دیا جائے کہ وہ غیر اسلامی، غیر آئینی اور غیر قانونی سرگرمیوں کا ارتکاب نہ کریں۔ درخواست گزاروں نے عدالت میں تین نعروں کا بھی حوالہ دیا اور دعوی کیا کہ شرکاء یہ نعرے لگائیں گے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ مارچ کے منتظمین ان نعروں کی وضاحت کر چکے ہیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اس موقع پر درخواست کنندگان سے کہا کہ ملک میں کئی اسلامی قوانین کی خلاف ورزی ہورہی ہے اور یہ کہ عدالت امید کرتی ہے کہ درخواست کنندگان ان خلاف ورزیوں کے حوالے سے بھی عدالت سے رجوع کریں گے۔ عدالت نے دلائل سننے کے بعد درخواست کو مسترد کر دیا۔

Published: undefined

عدالت کی طرف سے درخواست کو مسترد کئے جانے کے بعد منتظمین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ بعد ازاں ان کو اسلام آباد کی انتظامیہ کی طرف سے این او سی بھی جاری کر دیا گیا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ منتظمین کو ابھی بھی مشکلات اور شدید مخالفت کا سامنا ہے۔

Published: undefined

نیشنل پریس کلب میں عوامی ورکرز پارٹی کی مرکزی رہنما عصمت شاہ جہاں، اے ڈبلیو پی پنجاب کے صدر عمار رشید، فرزانہ باری اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس مارچ کے خلاف بے بنیاد پرو پیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ عصمت شاہ جہاں کا کہنا تھا کہ عورت ظلم، نا انصافی، صنفی امتیاز، زنا بالجبراور قومی و طبقاتی جبر کے خلاف آواز بلند کر رہی ہے اور اس مارچ کا مقصد بھی یہی ہے کہ حکومت سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ وہ ملک میں عورت ایمرجنسی نافذ کرے اور اس کے لئے عورت مارچ کے منتظمین اور خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کے ساتھ ڈائیلاگ کرے۔ "یہ مارچ جبری شادیوں کے خلاف، کم عمری کی شادیوں کے خلاف، جنسی ہراسیت کے خلاف اور ہر اس ظلم کے خلاف ہے، جس کا عورت شکار ہے۔"

Published: undefined

پریس کانفرنس کے دوران صورت حال اس وقت تھوڑی سی کشیدہ ہوگئی جب کچھ غیر معروف صحافیوں نے سوالات کی آڑ میں تقریریں کرنا شروع کر دی، جب اے ڈبلیو پی کے کارکنان نے انہیں روکنے کی کوشش کی، تو ہال میں شور شرابہ شروع ہو گیا۔ تاہم منتظمین نے ان غیر معروف صحافیوں کے شور شرابے کو پرجوش نعروں سے دبایا، جس میں انہوں نے عورتوں کی آزادی کے حوالے سے نعرے لگائے۔

Published: undefined

عمار رشید نے اس موقع پر بتایا کہ ان کے ایک ٹرک کو تحریک لیبک پاکستان کے کارکنان نے روک لیا ہے اور اس میں موجود بینرز اور دوسرا سامان چھین لیا ہے۔ "ٹی ایل پی کے کارکنان نے ڈرائیور پر بھی تشدد کیا اور مارکیٹ میں دکانداروں کو دھمکی دی کی مارچ کے لئے کوئی بھی سامان نہ دیا جائے ورنہ ان کو نتائج بھگتنے پڑیں گے۔"

Published: undefined

ان کا کہنا تھا کہ اب یہ قانون نافذ کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کریں۔عمار رشید نے اسے کھلی غنڈہ گردی قرار دیا اور واضح کیا کہ عدالتی اجازت کے باوجود پر امن شہریوں کے مارچ کو اس طرح روکنے سے اُن کے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔

Published: undefined

لیکن منتظمین کو صرف یہ ہی مشکل درپیش نہیں ہے بلکہ اسلام آباد و راولپنڈی کی کئی مذہبی جماعتوں اور مدارس کے ذمہ داروں نے ایک مشترکہ اجلاس میں آج حکومت کو کہا ہے کہ اگر اس نے اس 'خلاف اسلام، خلاف آئین و قانون اور خلاف نظریہ پاکستان' مارچ کو نہیں روکا تو پھر انتظامیہ حالات کی ذمہ دار ہوگی۔ اجلاس کے شرکاء نے اعلان کیا کہ وہ بھی اسلام آباد پریس کلب کے سامنے آٹھ مارچ کو حیا مارچ کا انعقاد کریں گے۔ مذہبی تنظیموں کا یہ اجلاس کالعدم سپاہ صحابہ کے زیر اثر ایک مسجد میں اسلام آباد میں ہوا۔

Published: undefined

مارچ کے اعلان سے لے کر اب تک ملک بھر میں اس موضوع پر شدید بحث نے معاشرے کو دو واضح کیمپوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک اس کے حق میں اور ایک اس کی مخالفت میں۔ بحث عوامی توجہ کا مرکز اس وقت بنی جب ڈرامہ مصنف خلیل الرحمن قمر نے حقوق نسواں کی معروف کارکن ماروی سرمد کے خلاف ایک لائیو ٹی وی شو میں انتہائی نا زیبا جملے استعمال کئے۔ ان کے اس رویے سے پورے پاکستان میں اس مارچ اور اس کے نعروں پر بحث شروع ہوگئی۔ شو بز سمیت کئی شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے خلیل الرحمن قمر کے جملوں کی شدید مذمت کی اور ملک کے معروف ٹی وی چینل جیو نے ان سے ہونے والا معاہدہ بھی معطل کر دیا۔

Published: undefined

سوشل میڈیا پر دائیں بازو اور مذہبی جماعتوں کے کارکنان کی ایک بڑی تعداد نے خیل الرحمن کے حق میں جملے لکھے اورآج انگریزی روزنامہ ٹریبون کے مطابق معروف اداکار احمد علی بٹ نے بھی اس مارچ کے ایک نعرے میرا جسم میری مرضی کو ہدف تنقید بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک مغربی مہم ہے اور اس کا مقصد جسم فروشی کو قانونی بنانا ہے۔

Published: undefined

کئی ناقدین کے خیال میں یہ پاکستان کی تاریخ کا شائد پہلا مرحلہ ہے جہاں شو بز کے افراد، جنہیں پاکستان کے قدامت پرست مولوی گناہ گار اور اسلام مخالف سمجھتے ہیں، اور مذہبی و کالعدم تنظیمیں ایک پروگرام کے خلاف ایک صف میں کھڑے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے مارچ کے منتظمین کو مشکلات ہو سکتی ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined