امریکا کے پاس اگر زبردست فوجی طاقت ہے، اسرائیل اور سعودی عرب اس کے ساتھ ہیں تو ایران کے پاس بھی جواب دینے کے کئی آپشن ہیں۔
Published: undefined
تہران کے پاس خطے میں سب سے بڑی قوت حزب اللہ ہے۔ لبنان کی یہ مسلح تنطیم سن بیاسی میں وجود میں آئی اور ملک کے جنوبی علاقے کی اہم سیاسی قوت ہے۔ اسرائیل کے ساتھ مسلح جھڑپوں کی وجہ سے اسرائیل اُسے خطے میں بڑا دردِ سر قرار دیتا ہے۔
Published: undefined
عراق اور شام کے اندر برسوں کی مسلسل لڑائی میں ملیشیا گروہوں کا ایک وسیع جال ہے۔ ان گروہوں کی پشت پناہی بیرونی طاقتیں کرتی ہیں، جن میں مغربی ممالک سمیت سعودی عرب، قطر اور ترکی شامل ہیں۔ ایران کا بھی عراق اور شام میں بڑا اثر ہے اور وہ کئی شیعہ تنظیموں کی پشت پناہی کرتا ہے۔
Published: undefined
یمن میں سعودی مداخلت کے خلاف برسرپیکار حوثی باغی بھی مبینہ طور ایران کے اتحادی ہیں۔ خطے میں ایران کے اس اثر کو بڑھانے میں قُدس فورس کے کمانڈر قاسم سُلیمانی کا کلیدی کردار تھا ۔ اسی لیے عراق میں امریکی ڈرون حملے میں ان کی ہلاکت تہران کے لیے بڑا دھچکا ہے۔
Published: undefined
ابھی تک ایران نے اس نقصان کا جواب دینے میں قدرے ضبط سے کام لیا ہے۔ واشنگٹن کے مطابق عراق میں امریکی اڈوں پر ایران کے جوابی میزائیل حملوں میں اس کا کوئی خاص نقصان نہیں ہوا۔
Published: undefined
بظاہر لگتا ہے کہ ایران جلد بازی میں کوئی کام نہیں کرنا چاہے گا کیونکہ اس کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔ جس کی ایک مثال ایرانی فوج کے ہاتھوں یوکرائنی مسافر جہاز کا سانحہ ہے۔
Published: undefined
مبصرین کے خیال میں حالیہ دو ہفتوں کے واقعات کے بعد دونوں ملک کوئی نیا جنگی تصادم شروع کرنے سے پہلے کئی بار سوچیں گے۔ لیکن آخر میں شاید یہ فیصلہ دو شخصیات ہی کریں گی کہ وہ باہمی کشیدگی کس حد تک لے جائیں: امریکا میں صدر ٹرمپ اور ایران میں رہبرِ اعلٰی آیت اللہ علی خامنہ ای۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز