سماجی اور تعلیمی امور کے کئی ماہرین اس ملاقات کو مذہبی طبقے کو خوش کرنے کی ایک کوشش قرار دے رہے ہیں۔ ان کے خیال میں ملک کا مذہب پسند طبقہ کبھی بھی مدرسوں میں اصلاحات نہیں ہونے دے گا۔ وزیر اعظم عمران خان نے بدھ کے روز علماء کے ایک وفد سے ملاقات کی تھی، جس میں انہوں نے مدارس کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ سماجی ترقی میں مدارس نے جو خدمات انجام دی ہیں، انہیں نظر انداز کر دیا گیا اور مدارس کو دہشت گردی سے بھی جوڑا گیا، جس کا کوئی جواز نہیں تھا۔
Published: undefined
پاکستان میں اعتدال پسند حلقے وزیر اعظم کے اس بیان، مذہبی علماء سے ان کی ملاقات اور مدارس میں ممکنہ اصلاحات پر تنقید کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت میں وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نورالحق قادری مبینہ طور پر انتہا پسندانہ تقریر پر تنقید کی زد میں ہیں۔
Published: undefined
انہوں نے یہ تقریر حال ہی میں مذہبی جماعتوں کے ایک پروگرام میں کی تھی، جس میں انہوں نے ایک مذہبی اقلیت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
Published: undefined
کئی ناقدین کے خیال میں ان کی یہ تقریر مذہبی منافرت پھیلانے کے زمرے میں آتی ہے۔ اس تقریب میں حافظ سعید سمیت کئی جہادی رہنما بھی موجود تھے۔ کہا جا رہا ہے کہ بدھ تین اکتوبر کو علماء اور وزیر اعظم کے مابین ہونے والی ملاقات کا اہتمام بھی نورالحق قادری نے ہی کیا تھا۔
Published: undefined
سماجی امور کے ماہرین کے خیال میں مدارس اور ان سے وابستہ تنظیموں پر الزام ہے کہ انہوں نے ملک میں فرقہ واریت پھیلائی اور مذہبی ہم آہنگی کو نقصان پہنچایا۔ ایسے میں ان مدارس کے سر پرستوں سے ملاقات انتہا پسند عناصر کی مزید حوصلہ افزائی بھی قرار دی جا رہی ہے۔
Published: undefined
معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر مہدی حسن کے خیال میں مدارس میں اصلاحات کی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں، ’’پہلے بھی عمران خان بابائے افغان طالبان مولانا سمیع الحق سے ملے تھے اور ان کے مدرسے کو خطیر رقم بھی دی گئی تھی۔ تو کیا وہاں اصلاحات ہوئیں؟ حالانکہ ان مدارس کی تعلیم جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے اور اس سے روزگار کے مواقع بھی پیدا نہیں ہوتے۔ لیکن مذہبی رہنما کسی بھی صورت نہ تو مدارس کا نصاب تبدیل کریں گے اور نہ ہی اس میں کوئی مداخلت برداشت کریں گے کیونکہ یہ ادارے صرف مدارس ہی نہیں بلکہ مولوی حضرات کے سیاسی قلعے بھی ہیں۔‘‘
Published: undefined
ماضی میں سعودی عرب پر یہ الزام رہا ہے کہ اس نے پاکستان میں ایسے مدارس کی مالی امداد کی، جو مذہبی منافرت، فرقہ پرستی اور انتہا پسندی پھیلانے میں ملوث رہے ہیں۔ نواز شریف کے دور میں یہ تاثر پیدا ہوا تھا کہ پاکستان میں سعودی اثر و رسوخ کم ہو جائے گا۔ لیکن موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے یہ اثر و رسوخ پھر بڑھ رہا ہے۔
Published: undefined
اس بارے میں ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ اصلاحات کی مزاحمت سعودی عرب کی طرف سے بھی ہو گی، ’’وہ یہاں پیسہ لا رہے ہیں۔ ان کا یہاں اثر و رسوخ ہے۔ ولی عہد محمد بن سلمان نے خود اعتراف کیا کہ ان کے ملک نے ماضی میں مغرب کے کہنے پر مدارس کھلوائے تھے۔ اب وہ اپنے ملک میں تو انہیں لگام ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہاں ایسے کوئی آثار نہیں کہ ان مدارس کے کردار کو ختم کیا جائے یا ان کے نصاب میں تبدیلی لائی جائے۔ اگر ایسا ہوا تو سعودی دباؤ بھی دیکھنے میں آئے گا۔‘‘
Published: undefined
معروف مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی کے خیال میں پاکستان میں دینی مدارس کے نصاب میں کوئی اصلاحات ممکن نہیں، ’’اصلاحات کا مطلب یہ ہے کہ آپ مدارس کے بچوں کو ریاضی، طبیعیات، کیمیا، کمپیوٹر سائنس اور دوسرے مضامین پڑھائیں۔ کیا ہمارے مولوی حضرات یہ مضامین پڑھا سکتے ہیں؟ وہ تو اورنگزیب کے دور سے درسِ نظامی پڑھا رہے ہیں، جس کی عملی دنیا میں کوئی کھپت ہی نہیں۔ تو یہ حلقے کسی بھی تبدیلی کی مخالفت تو کریں گے۔‘‘
Published: undefined
کئی ماہرین کے خیال میں سعودی سرمایہ کاری کے بعد ان ممکنہ اصلاحات کے عمل میں مزید مشکل پیدا ہو جائے گی۔ ان کے خیال میں مذہب پسند طبقے کو خوش کرنے کی روش ملک کو ہمیشہ سے نقصان پہنچاتی چلی آئی ہے۔
Published: undefined
معروف ماہر تعلیم پرویز ہودبھائی نے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’پہلے ہم نے لال مسجد والوں کو خوش کیا تھا اور اس کا نتیجہ بھی دیکھا۔ یہ عمل ریاست اور سیاسی رہنماؤں کی کمزوری کی عکاسی کرتا ہے۔ لیکن اس سارے عمل کے باوجود مولوی حضرات کسی بھی طرح کی تبدیلی کو تسلیم نہیں کریں گے۔ تبدیلی تو دور کی بات ہے، سعودی سرمایہ کاری کے بعد جو مدارس ان کے ایجنڈے پر چلیں گے، انہیں مزید فروغ ملے گا۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined