امریکی صدر نے طالبان کے ایک تازہ حملے کے بعد امن مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کیا، جس میں ایک امریکی فوجی بھی ہلاک ہو گیا تھا۔ تاہم اس کے باوجود یہ اعلان کئی افراد کے لیے حیرت کا سبب بنا۔
Published: undefined
طالبان نے افغانستان میں قیام امن کے لیے مذاکرات بھی جاری رکھے لیکن ساتھ افغانستان میں اپنی دہشت گردانہ کارروائیاں بھی بڑھا دی تھیں۔
Published: undefined
سکیورٹ امور کے کچھ افغان ماہرین کی رائے میں طالبان نے امن مذاکرات پر اثر انداز ہونے کے لیے اپنی کارروائیاں بڑھا رکھی ہیں۔
Published: undefined
افغانستان میں قیام امن کے لیے ایک سرگرم کارکن میلاد سکندری نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''امن مذاکرات کے دوران سیاسی اور عسکری دباؤ بڑھانا ایک عمومی عمل ہے۔ قندوز پر حملے کر کے طالبان اپنی عسکری طاقت کا مظاہرہ کر رہے تھے تاکہ امن مذاکرات کے دوران وہ اس سے فائدہ حاصل کر پائیں۔‘‘
Published: undefined
افغان طالبان تاہم اس تاثر کی نفی کرتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ جب تک تمام فریق سیز فائر پر رضا مند نہیں ہو جاتے تب تک طالبان پر بھی حملے روکنے کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ طالبان کے مطابق افغان سکیورٹی فورسز بھی ان کے جنگجوؤں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔
Published: undefined
کیا صدر ٹرمپ کا مذاکرات ختم کرنا، امریکا میں طالبان اور افغان نمائندوں سے خفیہ ملاقات منسوخ کرنا کابل حکومت اور طالبان کے لیے پیغام ہے کہ معاہدہ طے کرنے کے لیے واشنگٹن حکومت ان سے لچک کا مظاہرہ چاہتی ہے؟ کیا ٹرمپ بھی طاقت کا اظہار کر رہے ہیں؟
Published: undefined
اس بارے میں افغانستان کے سابق نائب وزیر دفاع تمیم آصی کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''میرا خیال ہے کہ طالبان رہنماؤں کو تشدد میں کمی لانے اور سیز فائر پر رضامند کرنے کے لیے یہ ٹرمپ کا نپا تلا قدم ہے۔‘‘
Published: undefined
تاہم سکیورٹی امور کے پاکستانی ماہر علی کے چشتی کی رائے میں صدر ٹرمپ کا اعلان صرف 'ایک عارضی قدم‘ ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے چشتی نے کہا، ''جیسا کہ ہم امریکی صدر کو جانتے ہیں، گمان غالب یہی ہے کہ وہ طالبان کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ امن مذاکرات اور پرتشدد کارروائیاں ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ میری رائے میں اس تنازعے کے تمام فریق، امریکا، طالبان، کابل اور اسلام آباد، امن معاہدہ چاہتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ تمام فریق اپنی اپنی شرائط پرامن معاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔ صدر اشرف غنی کی حکومت کے واشنگٹن سے اپنے مطالبات ہیں۔ اشرف غنی افغانستان میں اٹھائیس ستمبر کو صدارتی انتخابات اور مستقبل میں ایک ایسا سیاسی نظام چاہتے ہیں جس میں طالبان کو برتری حاصل نہ ہو۔ ماہرین کی رائے میں تمام فریق اپنی اپنی پوزیشن مضبوط بناتے ہوئے حصہ لینا چاہتے ہیں۔
Published: undefined
طالبان کے دوحہ میں ترجمان سہیل شاہین نے گزشتہ ہفتے ڈی ڈبلیو کو بتایا تھا کہ امریکا کے ساتھ مذاکرات میں افغانستان میں سیز فائر بھی ایجنڈے میں شامل ہے۔ شاہین کا کہنا تھا، ''کچھ معاملات نازک ہیں اور انہیں حل کرنے میں وقت لگے گا۔ لیکن مذاکرات (کے نویں دور میں) کافی پیش رفت ہوئی ہے اور ہمیں امید ہے کہ یہ آخری دور ہو گا۔‘‘
Published: undefined
لیکن یہ دور بھی آخری ثابت نہں ہوا۔ لندن میں مقیم افغان صحافی سمیع یوسفزئی موجودہ صورت حال کی ذمہ داری طالبان پرعائد کرتے ہیں۔ یوسفزئی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس تمام معاملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان موقعے کا فائدہ اٹھانے کے لیے سیاسی طور پر ابھی بھی پختہ نہیں ہوئے۔ امریکا کے ساتھ مذاکرات کے دوران طالبان کے زیادہ تر مطالبات مان لیے گئے تھے اس کے باوجود جب خلیل زاد کابل گئے تو طالبان نے ایک خونریز حملہ کر دیا۔ امن معاہدہ اب بھی بچایا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے طالبان کو لچک کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔‘‘
Published: undefined
یوسفزئی کی رائے میں اگر طالبان ملک گیر سیز فائر پر رضامند ہوتے ہیں تو امریکا مذاکرات کی میز پر واپس آ سکتا ہے۔
Published: undefined
تاہم کچھ تجزیہ نگار ایسے بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ امن معاہدے کے امکانات ختم ہو چکے ہیں۔ لاہور میں مقیم ایک تجزیہ نگار طاہر مہدی کا کہنا تھا، ''طالبان نے بہت کم اور بہت دیر سے لچک دکھائی ہے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined