خبریں

ولی عہد شیخ محمد بن زید کی طاقت اور حدود

جرمن وزیر خارجہ اردن کے بعد عراق پہنچ گئے ہیں۔ وہ یو اے ای اور ایران کا دورہ بھی کریں گے۔ دوسری جانب یو اے ای کے ولی عہد محمد بن زید پیر کو برلن پہنچ رہے ہیں۔ ان ہنگامی دوروں کے پیچھے کیا ہے؟

ولی عہد شیخ محمد بن زید کی طاقت اور حدود
ولی عہد شیخ محمد بن زید کی طاقت اور حدود 

جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے مشرق وسطیٰ کے اپنے چار روزہ دورے میں ایک مشکل مشن کا آغاز کیا ہے۔ وہ ایک ایسے وقت میں اس خطے کا دورہ کر رہے ہیں، جب ایران اور سعودی عرب کے درمیان براہ راست تصادم کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ یہ دونوں ملک خطے میں اپنا اثرو رسوخ بڑھانا چاہتے ہیں۔ یمن میں یہ دونوں ملک پچھلے تین برسوں سے ایک پراکسی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس کے نتیجے میں یمنی عوام کے مصائب اور تکالیف میں کئی گناہ اضافہ ہوا ہے۔

Published: undefined

جرمن وزیر خارجہ کو شاید جانا تو سعودی عرب چاہیے تھا لیکن انہوں نے امن مذاکرات کے لیے سعودی عرب کے قریب ترین اتحادی متحدہ عرب امارات کا انتخاب کیا ہے۔ وہاں پر وہ اپنے ہم منصب شیخ عبداللہ بن زید النیہان سے ملاقات کریں گے تاکہ خطے کی کشیدگی میں کمی لائی جا سکے۔ لیکن جرمنی اور متحدہ عرب امارات میں صرف یہی باقاعدہ ملاقات نہیں ہو گی۔ آئندہ پیر کے روز ابوظہبی کے ولی عہد اور متحدہ عرب امارات کی طاقتور شخصیت سمجھے جانے والے شیخ محمد بن زید النیہان برلن پہنچیں گے، جہاں ان کی ملاقات جرمن صدر فرانک والٹر شٹائن مائر سے بھی ہو گی۔

Published: undefined

ٹائم میگزین نے رواں برس شیخ محمد بن زید النیہان کو دنیا کی ایک سو بااثرترین شخصیات میں شامل کیا لیکن اس کے چند ہی ہفتوں بعد اس شہزادے کو اس کی 'بے بسی‘ کا احساس ہو گیا۔ مئی کے وسط میں متحدہ عرب امارات کے ایک ساحل پر متعدد بین الاقوامی تجارتی بحری جہازوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ان میں سعودی عرب کے تیل ٹرانسپورٹ کرنے والے بحری جہاز بھی شامل تھے۔ یہ حملے متحدہ عرب امارات کے ساحل کے قریب کیے گئے، جہاں سکیورٹی کے انتظامات ناقص تھے۔ شاید حملہ آور جانتے تھے کہ متحدہ عرب امارات کو کہاں آسانی سے ضرب لگائی جا سکتی ہے۔ علاقائی سالمیت کا خیال رکھنا ولی عہد کی مرکزی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔

Published: undefined

تجزیہ کاروں کے مطابق صورتحال سن انیس سو اکانوے جیسی ہوتی جا رہی ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق شیخ محمد بن زید النیہان کا سب سے اہم تجربہ عراق کویت جنگ ہی ہے، جب صدام حسین نے اپنے چھوٹے ہمسایہ ملک کویت پر حملہ کر دیا تھا۔ اس بے بسی میں کویت کے پاس صرف ایک ہی حل بچا تھا کہ وہ بین الاقوامی مدد حاصل کرے اور اس نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو مدد کے لئے پکارا۔ خدشات ہیں کہ کہیں تاریخ دوبارہ خود کو نہ دہرائے۔

Published: undefined

کچھ عرصہ قبل ولی عہد کے ہی حکم پر متحدہ عرب امارات کے ساحلوں پر کئی ملین ڈالر کی لاگت سے فوجی مشقیں کی گئیں۔ گزشتہ ایک برس سے وہ واشنگٹن کے کئی دورے بھی کر چکے ہیں۔ مقصد صرف ایک تھا کہ قومی دفاع کے لیے نئے ہتھیار خریدے جائیں۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق 'واشنگٹن میں انہیں ایک انتہائی اہم خارجی آواز تصور کیا جاتا ہے اور امریکا انہی کے اصرار پر خطے میں اپنی جنگی سرگرمیوں میں اضافہ کر رہا ہے۔‘‘

Published: undefined

ولی عہد کو سب سے بڑی فکر آبنائے ہرمز کی دوسری جانب واقع ملک ایران کی ہے۔ رواں ہفتے کے آغاز پر متحدہ عرب امارات نے ناروے اور سعودی عرب کی مدد سے اپنی تحقیقات کے ابتدائی نتائج پیش کیے۔ ان کے مطابق، ''تحقیقات ابھی جاری ہیں لیکن ابھی تک سامنے آنے والے حقائق کے مطابق چار حملے جدید اور منظم طریقے سے کیے گئے تھے اور انہیں کسی ایسے کردار کا تعاون حاصل تھا، جس کی صلاحیت کافی زیادہ ہے، زیادہ تر امکانات یہی ہیں کہ انہیں کسی ملک کا تعاون حاصل تھا۔‘‘ تاہم اس میں کسی ملک کا نام نہیں لیا گیا۔ ایران صرف یمن میں ہی متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے سامنے نہیں کھڑا بلکہ شام میں بھی یہ ممالک ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہیں۔

Published: undefined

ایران کے ساتھ طے پانے والے عالمی جوہری معاہدے سے امریکا کے نکلنے کے بعد سے خطے میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ محمد بن زید گزشتہ کئی برسوں سے اسی لیے اسلحہ خرید رہے ہیں کہ مشکل حالات میں، اسے استعمال کیا جا سکے۔ متحدہ عرب امارات کی فوج کا شمار عرب دنیا کی مسلح ترین افواج میں ہوتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہی خیال متحدہ عرب امارات کو ایران کے ساتھ کشیدگی میں اضافے پر آمادہ کر سکتا ہے۔

Published: undefined

جرمنی حکام محمد بن زید کے ساتھ ممکنہ جنگ کے خطرے کے بارے میں بات چیت کریں گے۔ اگر ایسا کوئی نیا تنازعہ شروع ہوتا ہے تو جرمنی بھی اس سے متاثر ہو گا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پناہ گزینوں کی ایک نئی لہر یورپ کی طرف رخ کر سکتی ہے۔ جرمنی نے سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت پر چھ ماہ کی پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن متحدہ عرب امارات کے لیے ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔ جرمنی کو یہ بھی خدشہ ہے کہ اس کے ہتھیار کسی نئے ممکنہ تنازعے میں استعمال ہو سکتے ہیں۔ جرمنی متحدہ عرب امارات کی اس بااثر شخصیت کے ذریعے ایک نئے مسلح تنازعے کو روکنا چاہتا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined