جب میں پچیس برس پہلے بیجنگ آیا تھا تو ڈِنگ شیاوپِنگ کی اصلاحاتی اور چین کے دروازے دنیا کے لیے کھولنے کی پالیسیاں اپنے عروج پر تھیں۔ اگر میں سن انیس چورانوے میں چین کے بارے میں یہ پیش گوئی کرتا کہ وہ سن دو ہزار اٹھارہ میں کیسا نظر آئے گا؟ تو اس وقت لوگ یقیناﹰ مجھے ایک پاگل قرار دیتے۔
Published: undefined
اُس وقت میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ چین اس قدر تیزی سے، خاص طور پر حالیہ عشرے میں، مغرب کے مقابلے میں آ جائے گا۔ ایک طویل عرصے سے مغرب اور چین کے مابین طاقت کا ایک توازن برقرار تھا۔ مغرب کے پاس ٹیکنالوجی تھی اور چین ایک بہت بڑی منڈی ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کے لیے ایک فیکڑی بھی تھا۔ چین میں مغربی مصنوعات کی کاپی تیار کرنے کو کوئی خطرہ محسوس نہیں کیا جاتا تھا۔
Published: undefined
اب چین خود ایجادات کا ملک بن چکا ہے۔ چینی کاروباری اداروں نے ’وی چیٹ پے اور علی پے‘ جیسی ایپلی کیشنز کے ساتھ بینک اور مالیاتی دنیا میں انقلاب برپا کر رکھا ہے۔ ہواوے کے اسمارٹ فونز اپیل کی طرح جدید ہیں اور عالمی سطح پر فروخت کے معاملے میں وہ امریکی آئی فون کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے ہی چین نے چاند کے آنکھوں سے اوجھل سائیڈ پر لینڈنگ کرتے ہوئے تاریخ رقم کی ہے۔ چین میں الیکڑک بسیں ایک عام سی بات ہیں جبکہ جرمنی جیسے ملک میں یہ ابھی بھی پائلٹ پروجیکٹس کے تحت چلائی جا رہی ہیں۔ اگر مصنوعی ذہانت کی بات کی جائے تو اس میدان بھی وہ اپنے حریف ممالک سے پیچھے نہیں ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
مغرب میں بہت سے لوگ ابھی تک حیران ہیں کہ ایسا کیسے ممکن ہے؟ ایسے افراد اصل میں اپنے ہی دقیانوسی خیالات کا نشانہ بنے ہیں۔ یہ سمجھتے تھے کہ چینی صرف نقلی مصنوعات تیار کرنے میں تیز ہیں۔ لیکن یہ شاید ان کی چھوٹی سی بیوقوفی تھی۔ ایک عشاریہ چار ارب انسانوں کی آبادی میں ذہین نوجوانوں کا گروہ خود کو کیوں نہیں منوا سکتا؟ جیسے ہی اقتصادی فریم ورک نے جگہ بنائی، ایجادات کا عمل شروع ہو گیا۔
Published: undefined
چین میں ایجادات اور ترقی کا سفر شاید مغرب کے لیے تو حیران کن ہے لیکن خود چینیوں کے لیے نہیں ہے۔ مغرب میں چین کو غیر ترقی یافتہ سمجھا جاتا تھا لیکن خود چینیوں کے خیال میں ان کا ملک ایک کمزور اور عارضی مرحلے سے گزر رہا تھا۔ چینی مفکرین کے خیال میں 150 برسوں بعد اب ان کا ملک معمول کے مطابق آتا جا رہا ہے۔ سن 1820ء میں چین دنیا کی تیسری بڑی اقتصادی قوت تھا۔ اس کے بعد افیون جنگ سے لے کر جاپانی حملے تک ایک توہین آمیز صدی کا آغاز ہوا۔ شکر ہے اب یہ دور ختم ہو چکا ہے۔
Published: undefined
اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں مغرب نے چین کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس کے پیچھے اُس چینی سلطنت کے غرور کا بھی ہاتھ تھا، جو خود کو دنیا کا مرکز سمجھتی تھی اور جس نے اُس وقت ٹیکنالوجیکل ترقی سے منہ موڑا، جب یہ یورپ میں قدم جما رہی تھی۔ چنگ سلطنت کا خیال تھا کہ وہ اس کے بغیر بھی سب کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور صنعتی انقلاب کے دوران سوئی رہی۔ اس وقت کے کانگ یوائی اور لیانگ کیچاؤ جیسے اصلاحات پسندوں کو ملک چھوڑنے یا پھر موت کے پھندے کا سامنا کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں چین کو منظم طریقے سے چلانا ناممکن ہو چکا تھا، جس کی وجہ سے یہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوا۔ اب چالیس برس بعد گزشتہ دسمبر میں چین نے ایک مرتبہ پھر دنیا کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں۔
Published: undefined
مختلف معاملات کے حوالے سے اب بھی چین پر تنقید کی جا سکتی ہے لیکن اگر ٹیکنالوجی کی بات کی جائے تو چین اس مرتبہ کشتی پر سوار ہو چکا ہے۔ ایک سخت سبق سیکھنے کے بعد وہ باقی دنیا سے بھی آگے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
Published: undefined
Published: undefined
اس امر کو اب بھلایا جا چکا ہے کہ کبھی جرمنی نے بھی برطانوی ریل کے انجنوں کی کاپی تیار کی تھی اور ’میڈ اِن جرمنی‘ کو برطانوی اشیاء کی سستی نقل سمجھا جاتا تھا۔ ٹیکنالوجی اور صنعت کی دنیا میں جرمنی کا عروج ایک دم سے ہوا تھا لیکن اس کے برعکس چین تو پھر بھی ماضی میں کئی صدیوں تک دنیا کے جدید ممالک میں شامل رہا ہے۔کاغذ، چینی مٹی کے برتن، بندوق پاؤڈر اور کمپاس جسیی ایجادات اسی ملک میں ہوئیں۔
Published: undefined
مغرب کو اپنا یہ نظریہ اب ترک کر دینا چاہیے کہ چین صرف سستی نقول تیار کرنے والا ملک ہے۔ چین میں ایجادات کے لیے آزادی میسر ہے۔ نقول تو آرڈر پر تیار کی جا سکتی ہیں لیکن تخلیق اور جدت کی صلاحیت کو ایسے تیار نہیں کیا جا سکتا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ چین کا مغربی دنیا پر انحصار کم ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن مغرب کا چینی مارکیٹ پر انحصار کم نہیں ہو رہا۔ جرمنی کے مشہور کار ساز ادارے وی ڈبلیو کے چیف ایگزیکٹیو کا حال ہی میں کہنا تھا، ’’فوکس واگن کا مستقبل چینی مارکیٹ طے کرے گی۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز