ترک دارالحکومت انقرہ سے ہفتہ 16 نومبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق امریکا اور ترکی دونوں ہی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے رکن اور ایک دوسرے کے اتحادی ممالک ہیں لیکن ترکی کی طرف سے جدید ترین روسی ساختہ S-400 میزائلوں کی خریداری پر امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ کے شدید ترین اعتراضات انقرہ اور واشنگٹن کے مابین غیر معمولی کھچاؤ کا باعث بن چکے ہیں۔
Published: undefined
ترک صدر رجب طیب ایردوآن اور ان کے امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ کے مابین اسی ہفتے بدھ کے روز اس بارے میں پھر ایک بار بات چیت بھی ہوئی تھی کہ دونوں ممالک کے مابین مسلسل شدید ہوتے جا رہے اختلافات کو کم کیسے کیا جائے۔
Published: undefined
یہ اختلافات خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے متعلق ترک حکومتی پالیسی سے لے کر انقرہ کی طرف سے روسی ایس چار سو میزائلوں کی خریداری اور ترکی کے خلاف امریکا کی ممکنہ پابندیوں کی دھمکیوں تک کئی شعبوں کا احاطہ کرتے ہیں۔
Published: undefined
Published: undefined
اس بارے میں ترکی کی دفاعی صنعت کے ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ اسماعیل دیمیر نے آج ہفتے کے روز نشریاتی ادارے سی این این ترک کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ انقرہ نے روس سے جو ایس چار سو میزائل خریدے ہیں، وہ صرف رکھے رہنے کے لیے نہیں خریدے گئے بلکہ انہیں استعمال بھی کیا جائے گا۔
Published: undefined
اسماعیل دیمیر کے مطابق کسی بھی ملک کے لیے یہ بڑی غیر منطقی بات ہو گی کہ وہ ایسے جدید ترین دفاعی میزائل سسٹم خرید تو لے لیکن پھر انہیں اپنے پاس صرف رکھے ہی رہے۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ انقرہ اور واشنگٹن دونوں کو ہی اس بارے میں اپنے اختلافات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، اسماعیل دیمیر نے کہا، ''یہ کوئی درست سوچ نہیں ہو گی کہ ہم کہیں کہ ہم نے یہ میزائل صرف اپنے پاس رکھنے کے لیے خریدے ہیں۔ ہم نے یہ دفاعی خریداری اپنی ضرورت کے تحت کی ہے اور اس کے لیے بہت بڑی رقوم بھی ادا کی ہیں۔‘‘
Published: undefined
Published: undefined
ساتھ ہی اس اعلیٰ ترک اہلکار نے مزید کہا، ''روس اور امریکا، ہمارے دونوں کے ساتھ ہی اتحادیوں والے تعلقات ہیں اور ہمیں اپنے ان معاہدوں کا احترام کرنا ہے، جو ہم نے کر رکھے ہیں۔‘‘
Published: undefined
ترکی کے اس موقف کا پس منظر یہ بھی ہے کہ انہی روسی میزائلوں کی خریداری کی وجہ سے ٹرمپ انتظامیہ انقرہ کے لیے اپنے ایف پینتیس جنگی طیاروں سے متعلق پروگرام کو معطل بھی کر چکی ہے اور واشنگٹن انقرہ کو یہ دھمکی بھی دے چکا ہے کہ وہ اسی ترک روسی دفاعی معاہدے کی وجہ سے انقرہ کے خلاف پابندیاں بھی عائد کر سکتا ہے۔
Published: undefined
امریکا کی طرف سے پابندیوں کی ان دھمکیوں کے باوجود ترکی کا کھلا جواب یہ ہے کہ وہ روس کے ساتھ ان میزائلوں کی خریداری کے معاہدے پر بالکل کاربند رہے گا، جن کی ماسکو کی طرف سے ترسیل اسی سال جولائی میں شروع بھی ہو گئی تھی۔
Published: undefined
ترک ڈیفنس انڈسٹری ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ اسماعیل دیمیر کے الفاظ میں، ''ایسا تو ہو نہیں سکتا ہم کسی دوسرے (ملک) کی وجہ سے ان میزائلوں کو استعمال نہ کریں۔‘‘ انہوں نے کہا، ''ہم اپنا فرض پورا کرتے ہوئے ان میزائلوں کو استعمال بھی کریں گے، لیکن کب اور کن حالات میں، یہ فیصلہ بعد میں وقت آنے پر کیا جائے گا۔‘‘
Published: undefined
قبل ازیں ترک صدر ایردوآن کے ترجمان ابراہیم کالین نے بھی کل جمعے کے روز کہہ دیا تھا، ''یہ تو ہو نہیں سکتا کہ اب ہم پیچھے کی طرف کوئی قدم اٹھائیں۔ ترکی ایس چار سو میزائل خرید چکا ہے اور انہیں فعال بھی رکھے گا۔‘‘
Published: undefined
م م / ع ح (روئٹرز)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined