ڈوئچے ویلے کے کَیرسٹن کنِپ مصر میں اس آئینی ریفرنڈم پر اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں کہ یہ بات یقینی ہے کہ اس تین روزہ عوامی رائے دہی کے نتیجے میں نہ صرف مجوزہ آئینی ترامیم کی منظوری دے دی جائے گی بلکہ ساتھ ہی موجودہ صدر عبدالفتاح السیسی کے صدارتی اختیارات میں بھی بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔
Published: undefined
اس ریفرنڈم سے قبل مصر کے مختلف شہروں کی سڑکوں پر جو ہورڈنگز دکھائی دیتے تھے، ان میں واضح طور پر لکھ دیا گیا تھا کہ عوام کو حکمرانوں کی کس پسندیدہ سمت میں اپنی رائے کا اظہار کرنا ہے۔
Published: undefined
اب تک مصر میں کسی بھی صدر کو چار چار سال کی صرف دو آئینی مدتوں کے لیے ہی منتخب کیا جا سکتا تھا۔ اب اس ریفرنڈم کے نتیجے میں چھ سالہ صدارتی مدت کے لیے کسی بھی رہنما کو تین بار سربراہ مملکت منتخب کیا جا سکے گا۔ اس کا عملی طور پر ایک مطلب یہ بھی ہو گا کہ ریفرنڈم کی کامیابی کی صورت میں السیسی 2030ء تک مصری صدر کے عہدے پر فائز رہ سکیں گے۔
Published: undefined
Published: undefined
مصر میں یہ ریفرنڈم ایک پریشان کن سیاسی پس منظر میں منعقد کرایا جا رہا ہے۔ قاہرہ حکومت کے ہزارہا مخالفین جیلوں میں ہیں۔ حکمرانوں سے مختلف رائے کے حامل شہریوں کا تعاقب کیا جاتا اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ملکی ذرئع ابلاغ کی آواز بھی تقریباﹰ ایک سی ہی ہے۔
Published: undefined
عوام کی بڑی تعداد متوقع طور پر اس رائے دہی میں حصہ نہیں لے گی، کیونکہ ان کے نزدیک اس ریفرنڈم میں حصہ لینا بھی ایک ایسی رعایت ہے، جس کی موجودہ حکومت حق دار نہیں۔ ان حالات میں ریفرنڈم کے نتیجے میں صدر السیسی کا اور بھی زیادہ بااختیار ہو جانا یقینی ہے۔
Published: undefined
مصر کے بہت سے باشندے اس تلخ حقیقت کی وجہ سے بھی اپنی ہمت کھو بیٹھے ہیں کہ ان کے ملک میں 1952ء میں ’نوجوان فوجی افسروں‘ کی بغاوت اور اقتدار پر قبضے کے بعد سے آج تک کے 70 برسوں میں، ایک محدود سے وقت کو چھوڑ کر، صرف خود پسند اور مطلق العنان حکمران ہی اقتدار پر قابض رہے ہیں۔
Published: undefined
مصری ریاست کے لیے جبر کا وہ ڈھانچہ، جو اس کا حصہ ہے، ایک ایسا کارآمد نظام ہے، جس کے ذریعے وہ یہ طے کرتی ہے کہ ملک میں کب کیا ہو گا۔ کسی دوسرے نظام کے لیے ریاست نے کوئی جگہ چھوڑی ہی نہیں۔
Published: undefined
Published: undefined
ناصر، سادات، مبارک اور السیسی: یہ خود پسند اور مطلق العنان حکمرانوں کا ایک ایسا سلسلہ ہے، جنہوں نے اس امر کے لیے بنیادیں فراہم کیں، کہ مصری عوام انہیں ’فرعون‘ کہنے لگے۔
Published: undefined
ان حکمرانوں نے ہر اس نئی امید پسندی کا گلا گھونٹ دیا، جس کے تحت عوام کسی ’تبدیلی‘ کی امید کر سکتے تھے۔ نئی صدی کے آغاز پر شمالی افریقہ کی اس عرب ریاست میں عوام نے ایک بار پھر تبدیلی کی خواہش کی تھی، جو 2011ء میں عرب اسپرنگ کی صورت میں اپنے عروج کو پہنچ گئی تھی۔
Published: undefined
پھر اس کے بعد سابق صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار میں آنے والے فوجی سربراہ السیسی جس طرح صدر منتخب ہوئے اور جو کچھ اس کے بعد سے اب تک مصر میں ہوا ہے، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کسی انقلاب کا تو کوئی ذکر ہی نہیں، اس ملک میں جو اصلاحات بھی متعارف کرائی جا سکتی تھیں، وہ بھی دوبارہ کسی جن کی طرح بوتل میں بند کر دی گئیں۔
Published: undefined
آج کے مصر میں اب جو کچھ ہو گا، وہ بذات خود ایک تضاد ہے: آئینی ریفرنڈم کو وسیع تر عوامی تائید و حمایت حاصل نہیں ہو گی لیکن لگتا ہے کہ وہ پھر بھی کامیاب رہے گا اور ایک مطلق العنان حکومت اس ویک اینڈ کے بعد اور زیادہ مطلق العنان ہو جائے گی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined