پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے پیر چار نومبر کو موصولہ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق جمیعت علمائے اسلام کے حکومت مخالف 'آزادی مارچ‘ کی قیادت کرنے والے مولانا فضل الرحمٰن وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو اپنی طرف سے دی گئی ڈیڈ لائن کے بغیر کسی پیش رفت کے ہی گزر جانے کے بعد اب اپنے اگلے اقدام پر غور کر رہے ہیں۔
Published: undefined
مولانا فضل الرحمٰن، جو اپنے ہزارہا حامیوں اور اپنی جماعت کے کارکنوں کے ساتھ کئی روزہ مارچ کے بعد ملکی دارالحکومت تک پہنچے تھے، پیر کے روز ملکی اپوزیشن کے رہنماؤں سے اس سلسلے میں ملاقاتیں کر رہے ہیں کہ ان کا پاکستان تحریک انصاف کی قیادت میں موجودہ وفاقی حکومت کے خلاف اگلا قدم کون سا ہونا چاہیے۔
Published: undefined
جمیعت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے اس مذہبی سیاسی رہنما کے حامی اور اس جماعت کے مذہبی مدرسوں کے جو ہزارہا طلبہ اسلام آباد پہنچے تھے، انہوں نے گزشتہ ہفتے جنوبی بندرگاہی شہر کراچی اور ملک کے دیگر شہروں سے مارچ کرتے ہوئے اسلام آباد کا رخ کرنا شروع کیا تھا۔
Published: undefined
اس مارچ کے شرکاء گزشتہ تین روز سے اسلام آباد کے مضافات میں اپنے کیمپ لگائے ہوئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی ہم خیال اپوزیشن جماعتوں کا عمران خان کی حکومت پر الزام ہے کہ وہ اچھی گورننس کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔
Published: undefined
اس مارچ اور پھر دھرنے کے شرکاء کا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ حکومت ملک میں ہر شعبے میں سخت اسلامی قوانین نافذ کرے۔ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت اب تک یہ مطالبات تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔
Published: undefined
نیوز ایجنسی اے پی نے یہ بھی لکھا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت کی طرف سے جو دینی مدرسے چلائے جاتے ہیں، ان سے نکلنے والے بہت سے طلبہ بعد میں نہ صرف افغانستان کی عسکریت پسند طالبان تحریک میں شامل ہو گئے تھے بلکہ انہی میں سے بہت سے پاکستان میں مقامی طالبان کے اس شدت پسند اور حکومت مخالف گروپ کا حصہ بھی بن گئے تھے، جو تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی کہلاتا ہے اور پاکستان میں ایک ممنوعہ تنظیم ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز