سن 2018 ميں قريب 113 ملين افراد کو قحط کا خطرہ لاحق رہا۔ يہ انکشاف ’فوڈ اينڈ ايگريکلچر آرگنائزيشن‘ (FOA) کی منگل يکم اپريل کو جاری کردہ سالانہ رپورٹ ميں کيا گيا ہے۔ رپورٹ کے مطابق شديد بھوک کی صورت حال سے دوچار افراد کی کُل تعداد کے دو تہائی حصے کا تعلق يمن، کانگو، افغانستان اور شام سے ہے۔
Published: undefined
رپورٹ ميں سامنے آيا ہے کہ سب سے زيادہ متاثرہ خطہ افريقہ کا ہے جہاں تقريباً بہتر ملين افراد کو شديد بھوک يا قحط کے خطرے کا سامنا رہا۔ مسلح تنازعات اور سياسی عدم استحکام اس صورتحال کے مرکزی اسباب ميں شامل تھے جبکہ اقتصادی سطح پر بے يقینی کی صورتحال اور موسمياتی تبديليوں کے اثرات نے بھی نماياں کردار ادا کيا۔
Published: undefined
’فوڈ اينڈ ايگريکلچر آرگنائزيشن‘ کے ہنگامی صورتحال سے نمٹنے والے محکمے کے ڈائريکٹر ڈومينيک بوژوں کے بقول جن علاقوں کو قحط کا خطرہ لاحق تھا، وہاں کے تقريباً اسی فيصد افراد زراعت پر بھروسہ کرتے ہیں۔ انہيں انسانی بنيادوں پر امداد اور خوراک کی فراہمی کے علاوہ زراعت کے شعبے ميں بھی مدد درکار ہے۔
Published: undefined
اس رپورٹ ميں ان ممالک پر اضافی بوجھ کا عکاسی بھی کی گئی ہے، جہاں پچھلے چند برسوں ميں بڑی تعداد ميں پناہ گزينوں کی تعداد پہنچی ہے۔ ايسے ممالک ميں شام کی پڑوسی رياستيں اور بنگلہ ديش شامل ہيں۔
Published: undefined
رپورٹ ميں البتہ يہ بھی واضح کيا گيا ہے کہ سن 2017 کے مقابلے ميں جب قحط کے خطرے سے دوچار افراد کی تعداد 124 ملين تھی، سن 2018 ميں صورتحال قدرے بہتر رہی۔ اس کی ايک بڑی وجہ يہ تھی کہ پچھلے سال چند لاطينی امريکی ممالک اور ايشيا پيسيفک خطے کے کچھ ملک ميں قدرتی آفات اور ان کی تباہ کاريوں کی شرح کم رہی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز